Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حج: 'رقم جمع کی لیکن اللہ کو منظور نہ تھا'

حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایسا رکن ہے جو مالی اعتبار سے استطاعت رکھنے والوں پر فرض ہے۔ کورونا کے باعث بیرون ملک سے عازمین حج کو اجازت نہ ملنے کے باعث بہت سے ایسے افراد رواں سال حج ادا نہیں کر سکیں گے جو زندگی بھر اس مقصد کے لیے رقم جمع کر رہے تھے۔  وہ مایوس ہوگئے ہیں کہ اگلے برس سانسوں کی ڈوری ساتھ دے گی بھی کہ نہیں کیا بھروسہ ہے؟

 

ضلع گجرات کے گاؤں نورجمال سے تعلق رکھنے والے 72 سالہ ریٹائرڈ صوبیدار میاں محمد اقبال اور ان کی اہلیہ غلام سکینہ بی بی بھی انھی افراد میں شامل ہیں جو کئی برسوں سے حج پر جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
تڑپ حد سے بڑھی تو انھوں نے اپنی آبائی زمین بیچ کر حج درخواستیں جمع کروا دیں۔ قرعہ اندازی میں نام آیا تو دونوں خوشی سے پھولے نہ سمائے۔
 غلام سکینہ بی بی نے بتایا کہ 'حج درخواستوں کی منظوری کا سنا تو اپنی کم علمی کے باوجود ہمہ وقت سجدہ شکر بجا لاتے رہے۔ اس کے باوجود شاید ہمارے شکرانے میں کوئی کمی رہ گئی تھی کہ کورونا آ گیا۔'
صوبیدار میاں محمد اقبال 27 سالہ سروس کے بعد تقریباً بیس سال قبل فوج سے ریٹائر ہوئے تو مزید 13 برس تک سکیورٹی کمپنی میں ملازمت کی۔ گاؤں کے سکول، مدرسے میں پڑھایا اور اپنے گھر کا نظام چلاتے رہے۔ دو بیٹوں میں بڑا بیٹا گاؤں سے دودھ اکٹھا کرکے شہر میں بیچنے کا کاروبار کرتا ہے جبکہ چھوٹا بیٹا بے روزگار ہے۔
2008  میں قریبی شہر ڈنگہ میں محفل نعت کی قرعہ اندازی میں میاں محمد اقبال کا عمرے کا ٹکٹ نکلا تو انہوں نے عمرہ ادا کیا۔

غلام سکینہ بی بی کا کہنا ہے کہ بیٹے پچاس اور سو روپے بھی جمع کرتے رہے (فوٹو: روئٹرز)

اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ 'جس دن سے عمرہ کر کے واپس لوٹے بس ایک ہی حسرت، خواہش اور تڑپ تھی کہ اللہ ایک بار اپنے گھر بلا لے اور مدینہ دکھا دے۔'
'ہر گزرتے سال کے ساتھ خواہش شدید تر ہوتی گئی لیکن مالی حالات نے ساتھ نہ دیا۔ اب جب یہ محسوس کیا کہ زندگی کے آخری ایام آ گئے ہیں تو سوچا کہ زمین، سونا یا جائیدادیں تو خواہشات کی تکمیل کے لیے ہی ہوتی ہیں اور حج سے بڑی خواہش کوئی ہو نہیں سکتی اس لیے ڈیڑھ کنال زمین بیچ کر حج درخواستیں جمع کروائیں۔'
انھوں نے کہا کہ بڑی آس لگا کر بیٹھے تھے کہ کورونا ختم ہوگا اور اچھی خبر آئے گی۔ اسی وجہ سے روزانہ بڑے غور سے خبریں بھی دیکھتے اور سنتے تھے۔'

2008  میں میاں محمد اقبال عمرہ کر چکے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

جذبات سے رندھی ہوئی آواز میں انھوں نے بتایا کہ 'جب یہ خبر سنی کہ سعودی عرب نے کورونا کی وجہ سے غیر ملکی حاجیوں کی میزبانی سے معذرت کرلی ہے تو اب مایوس ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔'
 اس دوران صوبیدار میاں محمد اقبال کی آواز ڈبڈبا گئی اور کہنے لگے کہ جو اللہ کو منظور ہے وہی ہوگا۔
اردو نیوز کے پوچھنے پر کہنے لگے 'تڑپ تو ہمیشہ سے تھی۔ پیسے نہیں تھے اس لیے کبھی درخواست نہیں دی۔ گذشتہ تین سال میں ہر سال پیسے جمع کرتے لیکن ہر بار یا تو کم پڑ جاتے یا پھر دو بیمار پوتوں کے علاج پر خرچ ہو جاتے۔ کچھ بچتا ہی نہیں تھا تو درخواست کیسے جمع کراتے۔'
ان کی اہلیہ غلام سکینہ بی بی نے کہا کہ 'بیٹے کبھی پچاس کبھی سو اور کبھی ہزار جمع کرتے لیکن جب بیمار پوتوں کی حالت دیکھتے تو اپنی عزیز ترین خواہش کی قربانی دینا پڑتی۔

محمد اقبال کے مطابق حج کے پیسوں سے ضروریات پوری کریں گے (فوٹو: وکی میڈیا)

 'اللہ نے پوتے بھی لے لیے اور اب جب زمین بیچ کر وسائل کا انتظام کیا تو کورونا رکاوٹ بن گیا ہے۔'
ایک سوال کے جواب میں دونوں میاں بیوی کا کہنا تھا کہ اگر اللہ ہمیں کورونا کے باوجود حج کا موقع فراہم کر دے تو ہم سعودی حکومت کی ہر ہدایت اور ایس او پی پر عمل پیرا ہو کر حج کرنے کو ترجیح دیں گے۔
 انہوں نے کہا کہ اگر خدانخواستہ حج کی اجازت نہیں ملتی تو مجبوراً ہمیں پیسے واپس لینا پڑیں گے کیونکہ کیا پتا ہم اگلے سال اللہ کو پیارے ہو جائیں اور بچے پیسے واپس لینے کے لیے دفتروں کے چکر کاٹتے رہیں۔
'پیسے واپس لیں گے کچھ ضروریات ہیں وہ پوری کریں گے۔ باقی جمع کرا دیں گے۔ اگر اللہ نے مہلت دی تو ہو سکتا ہے اللہ اگلے سال کہیں اور سے اسباب فراہم کر دے اور ہم حج کی سعادت حاصل کر سکیں۔'

شیئر: