Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پُرسکون اورخوشگوار زندگی کے لیے کیا کریں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ اختلاف کے لیے صرف تین منٹ کا دورانیہ کافی ہوتا ہے (فوٹو:الرجل)
اس میں کوئی شک نہیں کہ خانگی زندگی میں مشکلات بھی ہیں اور اتارچڑھاؤ بھی۔ مرد جو گھر کا سربراہ ہوتا ہے اس کے ذمے کسب معاش اور اہل خانہ کی دیگر ضرورتوں کو پورا کرنا ہوتا ہے گھر سے باہر بے پناہ مسائل کو اپنی ذات پر برداشت کرنے کے بعد جب سربراہ خانہ اس سوچ کے ساتھ گھرآتا ہے کہ اسے چند گھنٹے آرام کرنے کو ملیں گے۔
گھر کے پرسکون ماحول میں وہ اپنے دن بھر کی تھکان اتارے گا اور دوسرے دن کے لیے دوبارہ تازہ دم ہو جائے گا۔
مگر اس کے برعکس گھر میں داخل ہوتے ہی جب دن بھر کے تھکے ہارے مرد کو لڑائی، چیخ وپکار سننے کو ملتی ہے تو اس کا قابو سے باہر ہونا ایک فطری عمل ہے۔
دوسری جانب خاتون خانہ جو صبح سے شام تک اور شام سے رات تک بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی فرمائشیں پوری کرتے کرتے تھک کر چور ہوئی ہوتی ہے ایسے میں اسے اپنے شوہر کی جانب سے بھی کچھ سننے کو مل جائے تو یقینی طور پر گھر کا ماحول ’تیسری عالمی جنگ ‘ کا نقشہ پیش کرنے لگتا ہے۔
ایسے میں مرد کے لیے گھر جانے کی سوچ ہی پریشان کن تصورات کے ساتھ ایک خوفناک صورت میں ابھر کر سامنے آتی ہے اور اس کے دماغ میں طرح طرح کے خیالات جنم لیتے لگتے ہیں اسے گھر جانا کسی امتحان سے کم محسوس نہیں ہوتا۔
اس صورتحال کو ہم یکسر تبدیل کرسکتے ہیں اور کچھ طریقوں سے خانگی زندگی کو باعث راحت بنایا جاسکتا ہے۔
ایسے اوقات میں جب خانگی امور یا دیگر معاملات میں بحث طول پکڑ جائے اور معاملات خراب ہونے کی نوبت تک پہنچنے کی توقع کی جارہی ہو ان حالات سے بخوبی نمٹنے کے لیے ماہرین کہتے ہیں۔

کمرے کی لائٹ کم رکھیں

جب گھر میں معاملات آوٹ آف کنٹرول ہونے لگیں خواہ وہ اہلیہ کی جانب سے ہوں یا بچوں کے معاملات، انہیں سلجھانے کےلیے حوصلے، صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
ساتھ ہی کمرے کی روشنی کو انتہائی کم کردیں اگر زیرو بلب یا کم پاور کا لیمپ ہے تو اسے آن کردیں اور اگر دن کی روشنی ہے تو کوشش کریں کہ کمرے کی کھڑکی بند کرکے پردے گرادیے جائیں۔

جب دن بھر کے تھکے ہارے مرد کو لڑائی، چیخ وپکار سننے کو ملتی ہے تو اس کا قابو سے باہر ہونا ایک فطری عمل ہے (فوٹو:گیٹی امیجز)

مدھم روشنی میں انسانی جلد کے خلیات سکڑتے ہیں اور فشار خون بھی معمول کے مطابق ہوجاتا ہے جب کہ دماغ لاشعوری طور پر سکون کی جانب مائل ہونے لگتا ہے۔

مثبت و منفی واقعہ 

کھانے کے ٹیبل یا دسترخوان پر بیٹھیں تو ایک بات کا خیال رکھیں بلکہ بچوں میں اس کی عادت ڈالیں وہ یہ کہ ہر کوئی دن بھر کے واقعات میں سے ایک مثبت اور ایک منفی واقعہ بیان کریں۔
بچوں میں ان واقعات کا تقابل کرتے ہوئے مثبت کام کوسراہیں اور منفی عمل کے نقصانات پرروشنی ڈالیں۔ بچوں میں اس عمل سے ان کے اندر مستقبل میں منفی اور مثبت کا فرق واضح ہوجاتا ہے اور وہ ہمیشہ مثبت رہنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ لاشعوری طور پر ان کے دماغ میں مثبت سوچ اجاگر ہوجاتی ہے۔

مضبوط فیصلہ

بعض اوقات حالات ایسا رخ اختیار کرجاتے ہیں کہ آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی فیصلہ کرنا پڑتا ہے ایسے میں سوچ و فکر کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے خانگی امور کی بہتری کے لیے فیصلہ کیاجائے اور اس پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کویقینی بنائیں۔
کبھی معاملات برعکس ہونے کی بھی امید ہوتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ فیصلہ اس نوعیت کا ہو کہ کسی کو اس سے اختلاف کرنے کی گنجائش نہ ہو یعنی مدلل اور منطقی۔

نرم مزاجی کا عنصر

خانگی امور کو بہتربنانے کے لیے لازمی ہے کہ دماغ کو ہمیشہ پرسکون رکھیں اور نرمی کے عنصر کو ہاتھ سے نہ جانے دیں کیونکہ بعض اوقات حالات ایسے نہیں ہوتے جس طرح آپ سوچ رہے ہوتے ہیں یا جیسا آپ نے منصوبہ بندی کی ہوتی ہے۔

بچوں میں ان واقعات کا تقابل کرتے ہوئے مثبت کام کوسراہیں اور منفی عمل کے نقصانات پرروشنی ڈالیں (فوٹو:ٹوئٹر)

مخاطب کرتے وقت ’ہم‘ کا صیغہ استعمال کریں

اہلیہ یا بچوں سے کسی معاملے پر اختلاف ہونے کی صورت میں اس امر کا خیال رکھیں کہ ہمیشہ مخاطب کرتےوقت ’تم‘ نہیں بلکہ ’ہم ‘ یعنی جمع کا صیغہ استعمال کریں، کیونکہ اختلاف پیدا ہونے پر اگر ’تم ‘ یا اچھائی کے لیے ’میں‘ کا صیغہ استعمال کرنا آگ پر پیٹرول چھڑکنے کے مترادف ہوتا ہے۔
اس لیے ’ہم ‘ کا صیغہ ہی استعمال کیا جائے جس سے معاملہ قدرے بہتری کا رخ اختیار کرنے لگتا ہے۔
شام 6 سے 8 درمیان بحث
شکاگویونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شام 6 سے 8 بجے کے درمیان اختلافی مسئلے پر بحث نہ کی جائے کیونکہ اس وقت ذہنی خلفشار عروج پر ہوتا ہے اور معمولی سی بات بھی بگڑسکتی ہے۔
یہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ ہر کوئی دن بھر کی تھکاوٹ سے چور ہوتا ہے اور دماغی روش میں بھی خلفشار اپنی انتہا کو ہوتا ہے جبکہ نفسیاتی طور پر بھی انسان تھکا ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اوقات ’ٹائم بم ‘ کی طرح ہوتے ہیں صرف اشارہ کریں اور بلاسٹ ہو جائے۔

اختلاف کی اجازت مگر 3 منٹ کے لیے

واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اختلاف کے لیے صرف تین منٹ کا دورانیہ کافی ہوتا ہے اس کے بعد اختلاف برائے اختلاف ہوتا ہے جو بحث سے نکل کر جھگڑے کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مقررہ مدت کے بعد تحت الشعور میں دبے ہوئے ماضی کے واقعات ابھر کر سامنے آجاتے ہیں اور بحث بڑھتے بڑھتے جھگڑے کی جانب چل پڑتی ہے جس کے بعد حالات کو کنٹرول کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
اس سے قطع نظر کے آپ بحث یا اختلاف اپنی اہلیہ سے کررہے ہیں یا بچوں سے تین منٹ کا دورانیہ بہت ہوتا ہے اس کے بعد موضوع کو پلٹ دیں اور کسی خوشگوار واقعے کی طرف موڑ لیں یہ دورانیہ جسے اختلاف میں وقفہ بھی کہا جاسکتا ہے ایک منٹ کا بھی ہوسکتا ہے
اس عمل سے دماغ میں پرانی یادیں صاف ہو کرنئی سوچ ابھرے کی جو جھگڑے کی جانب نہیں ہوگی۔ 

شیئر: