پاکستان کی پارلیمان کے ایوان زیریں قومی اسمبلی کا پاس کردہ فوجداری معاملات پر قانونی معاونت کا بل سینیٹ سے منظور نہ ہوسکا۔ جس کے بعد قومی اسمبلی نے یہ بل پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں بھیجنے کی قرار داد منظور کر لی ہے۔
کئی شہری پاکستان میں جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور بیرون ملک فرار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ افراد دوسرے ملکوں میں جرم کرکے واپس پاکستان آ جاتے ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی جس میں کئی قانونی کمزوریاں رکاوٹ بنتی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
فوجداری مقدمات میں معاونت کا بل منظورNode ID: 451731
-
’اب جبری گمشدگی پر ضابطہ فوجداری کا مقدمہ درج ہو گا‘Node ID: 453531
-
’فوجداری جرم کی سزا کس صورت میں نہیں‘Node ID: 455376
انہی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے پاکستان کی قومی اسمبلی میں دوسرے ممالک سے فوجداری معاملات پر قانونی معاونت کا بل جنوری میں منظور کیا تھا۔ بل وزارت داخله کى جانب سے پىش کیا تھا۔
قومی اسمبلی کے بعد بل سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا اور سینیٹ کی کمیٹی نے بھی بل 18 جنوری کو پاس کر دیا۔ اس کےبعد کورونا کے باعث سینیٹ کا اجلاس منعقد نہ ہونے کے باعث 90 دن کا مقررہ وقت ختم ہوگیا اور بل از خود قومی اسمبلی میں واپس پہنچ گیا۔ پیر کو قومی اسمبلی اجلاس کے دوران مشیر برائے پارلیمانی امور نے بل مشترکہ اجلاس میں بھیجنے کی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل قومی اسمبلی سے منظور ہوا تھا تاہم سینیٹ نے اسے منظور نہیں کیا اس لیے حکومت اب یہ قانون سازی مشترکہ اجلاس میں کرنا چاہتی ہے۔
اس بل کے حوالے سے اپوزیشن کے کچھ تحفظات بھی تھے جن کا اظہار انہوں نے قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں کیا تھا۔
اس بل کے تحت پاکستان میں فوجداری جرائم کے مرتکب وہ افراد جو پاکستان سے باہر کسی دوسرے ملک میں مقیم ہیں ان سے تحقیقات کرنے، ان کے خلاف عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرانے، سرچ وارنٹ حاصل کرنے اور دستیاب شواہد کو ملک واپس لانے کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

18 صفحات پر مشتمل اس طویل بل کے اغراض و مقاصد میں کہا گیا ہے کہ فوجداری مقدمات کے سلسلے میں مختلف ممالک کے قوانین میں یکسانیت نہ ہونے اور باہمی روابط کے کمزور طریقہ کار کی وجہ سے کئی چیلجنز کا سامنا ہے۔
ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قانونی تحفظ درکار ہے۔ فوجداری مقدمات میں باہمی قانونی تعاون موجودہ خلا کو پُر کرنے میں مدد دے گا۔ اس قانون کے تحت قانونی مدد کے لیے درخواست دینے والے ممالک ایک دوسرے سے تعاون کے پابند ہوں گے۔
اس قانون کے تحت قانونی معاونت کے لیے ایک مرکزی اتھارٹی قائم کی جائے گی۔
یہ اتھارٹی سیکرٹری داخلہ یا ان کے نامزد کردہ افسران پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ مرکزی اتھارٹی کسی دوسرے ملک کو پاکستان کی جانب سے کسی جرم میں تحقیقات یا کارروائی میں قانونی معاونت کی درخواست کرے گی، جس کا ارتکاب پاکستان یا پاکستان سے باہر کیا گیا ہو۔
اتھارٹی کسی دوسرے ملک سے گواہوں، ملزموں، مشتبہ افراد کی جگہ (لوکیشن) اور شناخت کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے کی درخواست کر سکتی ہے۔ اسی طرح اتھارٹی شواہد اور ملزم کی تلاش کے لیے سرچ وارنٹ سمیت دیگر قانونی دستاویزات اور اگر شواہد ملیں تو متعلقہ ملک کے قانون کے تحت ضبط کرنے کی درخواست کر سکتی ہے۔
دوسرے ملک کے قانون کے مطابق جرم کی نوعیت کے مطابق نہ صرف جائیداد ضبط یا منجمد کرنے کی درخواست کی جا سکتی ہے بلکہ شواہد، دستاویزات، پراپرٹی وغیرہ بھی پاکستان منتقل کرنے کی درخواست کی جا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ بیرون ملک سے کسی شخص کو پاکستان کے حوالے کرنے کی درخواست بھی کی جا سکتی ہے۔
قانون کے تحت باہمی معاہدہ کرنے والے ممالک ایک دوسرے سے کسی مطلوبہ شخص کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے بینک اکاؤنٹس، مالی معاملات اور بزنس ریکارڑ کے متعلق بھی معلومات کی درخواست دے سکتے ہیں۔
پاکستان میں کسی بھی فوجداری جرم کی تحقیقات یا کارروائی کے لیے باہمی قانونی معاونت کے لیے بھی ممالک درخواست دے سکتے ہیں اور یہ درخواست بھی اسی قانون کے تحت قائم مرکزی اتھارٹی ہی وصول کرے گی۔
پاکستان میں اثاثے منجمد یا ضبط کرنے یا جرمانے کی وصولی کی درخواست پر اتھارٹی عدالت سے رجوع کرے گی تاہم کوئی بھی شخص پاکستان کے رائج قانون کی بنیاد پر سوال کا جواب دینے سے انکار بھی کر سکتا ہے۔
