Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'پولیو زدہ بچوں کی تعداد چھ ماہ میں پانچ سو ہو سکتی ہے'

'تقریباً سات لاکھ بچوں کو مختلف بیماریوں سے بچاﺅ کے ٹیکے نہیں لگے (فوٹو: اے ایف پی)
انسدادِ پولیو کے لیے قائم نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر رانا محمد صفدر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال سے پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔
انسدادِ پولیو سرگرمیاں پوری طرح بحال نہ ہوئیں تو آئندہ چھ ماہ میں پولیو کیسز کی تعداد بلند ترین سطح تک پہنچ سکتی ہے۔ 20 جولائی سے ملک کے چار شہروں میں محدود پیمانے پر پولیو سے بچاﺅ کی مہم چلائی جائے گی۔ اس کے بعد مہم کو ملک بھر میں مرحلہ وار وسعت دی جائے گی۔ 
دوسری جانب حکام کا کہنا ہے کہ پولیو کے ساتھ ساتھ دیگر مہلک بیماریوں سے بچاﺅ کی ویکسین کی مہم کورونا کی وجہ سے متاثر ہونے سے بچوں کے بیمار ہونے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ 
نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر اسلام آباد کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر رانا محمد صفدر نے بتایا کہ ملک میں تقریباً چار کروڑ بچے انسداد پولیو مہم نہ چلانے کی وجہ سے خطرے میں ہیں کیونکہ مارچ کے بعد سے کوئی مہم نہیں چلائی گئی۔
کورونا کی وجہ سے پولیو کی روک تھام کے لیے جاری کام کو روکنا پڑا۔ پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو کافی دھچکا لگا ہے۔ گذشتہ دو برسوں کے دوران پیش آنے والی مشکلات کے بعد دسمبر اور فروری میں دو اچھی مہم کے ذریعے حاصل کیے گئے اہداف متاثر ہوئے۔ اگر اپریل اور جون میں مہم چلائی جاتی تو پولیو کیسز میں کافی کمی آجاتی۔
'اس وقت 58 کیسز پورے پاکستان میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں برابر کیسز سامنے آرہے ہیں۔ والدین کوآگاہی دینا بہت ضروری ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے انکاری والدین کی تعداد میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔ بہت سے لوگ ہسپتالوں میں بھی جانے سے کتراتے ہیں۔'

او پی ڈیز کی بندش سے بنیادی اور دیہی مراکز صحت میں بھی کام متاثر ہوا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے ہسپتالوں میں او پی ڈیز کی بندش، نقل و حرکت پر پابندیوں کی وجہ سے بنیادی اور دیہی مراکز صحت میں بھی ہمارا کام متاثر ہوا۔ حفاظتی ٹیکہ جات کی شرح میں بھی کمی آئی۔ اپریل میں مسائل کافی زیادہ رہے ۔اس دوران دو سال سے کم عمر کے تقریباً سات لاکھ بچے جنہیں مختلف بیماریوں سے بچاﺅ کے ٹیکے لگنے تھے وہ ان کو بروقت نہیں لگ لگے۔
ڈاکٹر رانا صفدر کے مطابق قومی سطح پر مشاورت اور گلوبل ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ کو اعتماد میں لینے کے بعد ہم 20 جولائی سے انسداد پولیو مہم کو بحال کرنے جا رہے ہیں۔ ’کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد یہ پہلی مہم ہے، یقیناً ہمارے کام کا طریقہ کار پہلے کی نسبت بہت مختلف ہوگا۔ مہم میں حصہ لینے والے کارکنوں اور عام لوگوں کی صحت کا خصوصی خیال رکھا جائے گا۔ علامات رکھنے والے کو حصہ نہیں بنائیں گے۔ کارکنوں کو حفاظتی سامان دیا جائے گا تاکہ وہ خود بھی وائرس سے متاثر نہ ہوں اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ بھی نہ لے جائیں۔ 
انہوں نے کہا کہ مہم کے دوران ہم اس حد تک محتاط ہوں گے کہ جب گھر کے دروازے پر والدین بچے کو لے کر آئیں گے تو اس بچے کا منہ بھی وہ خود کھولیں گے، ویکسی نیٹر تمام حفاظتی اقدامات کے ساتھ صرف بچے کے منہ میں ویکیسن ڈالے گا۔ ایک دوسرا بندہ ریکارڈ مرتب کرنے پر مامور ہوگا۔ 

 قطرے پلانے کے لیے کا عملہ بچے کا منہ بھی خود ہی کھولے گا (فوٹو: اے ایف پی)

ای او سی کے کوآرڈینیٹر نے کہا کہ یہ محدود پیمانے پر مہم ہوگی جو چاروں صوبوں کے چند مخصوص شہروں میں ہوگی۔ لاہور میں80، کراچی میں 23 اور کوئٹہ کی تقریباً 10 یونین کونسلوں میں مہم چلائی جائے گی۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں جنوبی وزیرستان کے پورے ضلعے میں مہم چلائیں گے۔ محدود پیمانے کی اس مہم سے ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ انسداد پولیو پروگرام کی پوری طرح بحالی میں ہمیں کیا چیلنجز سامنے آسکتے ہیں۔ اس کے بعد ہم مہم کو مرحلہ وار وسعت دیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا منصوبہ ہے کہ آئندہ چار ماہ میں تین ملک گیر مہم چلائی جائیں جس میں پانچ سال سے کم عمر کے تمام چار کروڑ بچوں تک پہنچ کر انہیں کم از کم تین دفعہ پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلائے جائیں۔ اس منصوبے کی ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ کے ساتھ ساتھ ہماری سینیئر قیادت یعنی وزیراعظم اور آرمی چیف نے تائید کی۔ کورونا سے متعلق قائم نیشنل کنٹرول آف کمانڈ سینٹر کی معاونت بھی حاصل ہے اور چاروں صوبوں کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے۔ 
ڈاکٹر رانا صفدر کے مطابق پولیو پروگرام 2018 تک درست سمت میں گامزن تھا اور ہم پولیو کے خاتمے تک بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ اس کے بعد حکومتیں تبدیل ہونے اور ضلعی سطح پر افسران کے تبادلوں سے پورے پاکستان میں پروگرام متاثر ہوا۔ اپریل 2019 میں پشاور میں انسداد پولیو کی قومی مہم کے دوران ویکسین کے خلاف سوشل میڈیا پر جعلی اور منفی پروپیگینڈے کے نتیجے میں ہمیں کام روکنا پڑ گیا۔ اس کے بعد کئی ماہ تک ہم اس نقصان کی تلافی کرنے میں لگ گئے۔ 

مہم میں شریک کارکنوں کو حفاظتی سامان فراہم کیا جائے گا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ 2019 کے آخر میں ہم نے اپنے آپ کو دوبارہ سے منظم کیا اور پولیو کے خلاف جنگ کے لیے نئی جدوجہد شروع کی۔ دسمبر 2019 اور فروری 2020 میں قومی سطح پر مہم چلائی اور پانچ سال سے کم عمر کے چار کروڑ بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلائے۔
جنوری اور مارچ میں ہائی رسک اضلاع میں ہمارا ہدف ایک کروڑ 80 لاکھ بچوں کا تھا جسے ہم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن اس دوران کورونا وائرس کی وجہ سے انسداد پولیو کا کام روکنا پڑا۔ ’ہم نے اپریل میں ملک گیر مہم میں چار کروڑ بچوں اور جون میں دو کروڑ بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلانے کے لیے منصوبہ بنا رکھا تھا لیکن یہ دو مہم ہم نہیں کرسکے۔'
انہوں نے کہا کہ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ چار ماہ مسلسل مہم نہ ہونے کی وجہ سے پولیو کے کتنے کیسز سامنے آئیں گے ۔ دسمبر میں سب سے زیادہ 32 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ اس کے بعد جب مہم چلائی گئی تو کیسز کم ہونا شروع ہوگئے ۔ جنوری میں 17 اور فروری میں غالباً 14 کیسز رپورٹ ہوئے۔ ’ہمارا اندازہ ہے کہ اگر پوری طرح سرگرمیاں بحال نہیں ہوتیں اور والدین کا تعاون نہیں ہوتا تو آئندہ چھ ماہ میں پولیو کیسز کی تعداد پانچ سو تک جا سکتی ہے۔ یہ بہت خطرناک صورت حال ہے جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے ۔ اس لیے ہم نے بغیر کسی تاخیر کے انسدا د پولیو مہم کی بحالی پر تیزی سے کام شروع کر دیا ہے۔ ‘ 
ڈاکٹر رانا صفدر کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں کورونا کے کیسز میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر مزید بہتری آتی ہے تو یہ ہمارے لیے بہت اچھا ہوگا۔ 

اپریل میں کورونا کی وجہ سے انسداد پولیو مہم نہیں چلائی جا سکی (فوٹو: روئٹرز)

کوئٹہ میں انسداد پولیو پروگرام کے تکنیکی ماہر ڈاکٹر آفتاب کاکڑ کا کہنا ہے کہ پولیو کی ویکسین پندرہ سے بیس دنوں تک بچوں کے انتڑیوں میں رہتی ہے. اس کے بعد ویکسین کی کچھ مقدار خون میں اور کچھ مقدار پاخانے کے ذریعے جسم سے خارج ہو جاتی ہے۔ جب تک ہمارے ملک سے پولیو کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا اس وقت تک پانچ سال سے کم عمر ہر بچے کو مہینے میں کم از کم ایک بار ضرور پولیو ویکسین دینی چاہیے تاکہ اگر وائرس حملہ آور بھی ہوں تو بچے پر اس کا اثر نہ ہوں۔ 
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چار ماہ سے پولیو نہ ہونے کی وجہ سے پولیو کیسز کی تعداد میں کافی اضافہ ہوگیا ہے ۔ بلوچستان میں پچھلے پورے سال میں صرف بارہ کیسز سامنے آئے تھے. اس بار صرف ابتدائی چھ ماہ میں چودہ کیسز سامنے آئے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ مہم کی کتنی افادیت ہے۔ مزید بھی یہ مہم نہ ہوسکی تو کیسز کی تعداد بہت زیادہ بڑھے گی اور کافی سارے بچے اپاہج ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ وسطی پاکستان کے شہروں سکھر ، نصیرآباد، جعفرآباد اور سندھ کے کئی اضلاع میں پچھلے سال سے پولیو کا پھیلاﺅ بہت بڑھ گیا تھا۔ 
ڈاکٹر آفتاب کاکڑ کے مطابق بلوچستان میں ہم ہر مہم میں چوبیس سے پچیس لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلاتے تھے اور وہ خطرے سے دو چار ہیں۔ جن کے والدین انکاری تھے اور ان بچوں نے مارچ یا فروری سے انسداد پولیو کے قطرے نہیں پیئے تو انہیں چھ ماہ ہوگئے ہیں ان کے جسم میں ویکسین نہیں ہوگی تو وائرس انہیں فوری متاثر کرسکتا ہے۔ 
ڈاکٹر آفتاب کاکڑ نے بتایا کہ پولیو کے ساتھ ساتھ باقی بیماریوں سے بچاﺅ کی ویکسین کا عمل بھی متاثر ہوا ہے۔ بلوچستان میں حفاظتی ٹیکہ جات کی شرح میں بہت کمی آئی ہے جس کے نتیجے میں ہیضہ ، نمونیا ، خسرہ اور دیگر بیماریاں پھیلنا شرو ع ہوگئی ہیں۔ ہسپتالوں میں آنے والے بیمار بچوں کی تعداد میں پہلے سے اضافہ ہوا ہے۔ ہمیں بچوں کو پولیو اور دیگر مہلک بیماریوں سے بچاﺅ کے اقدامات پر فوری توجہ دینا ہوگی۔ 

شیئر:

متعلقہ خبریں