Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا: شریک حیات سے فاصلے سے تعلق

ایک ملک میں رہنے والے جوڑے بھی کورونا کی وجہ سے مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں: فائل فوٹو پکسابے
کورونا کے اثرات اقتصادی، سماجی اور پیشہ ورانہ شعبوں تک ہی محدود نہیں رہے۔ کورونا کی وبا نے ایک چھت تلے زندگی گزارنے والے جوڑوں کے تعلقات پر بھی  اثرات ڈالے ہیں۔
ہاؤس آئسولیشن کے زمانے میں میاں بیوی کو نامانوس قسم کی زندگی سے دوچار ہونا پڑا۔ ذہنی و اقتصادی دباؤ اور کورونا کے خدشات نے دنیا بھر میں طلاق کی شرح بڑھا دی۔ عرب دنیا بھی اس سے مستثنی نہیں۔
ایسا بھی ہوا کہ سفری پابندیوں کی وجہ سے شوہر اور بیوی مختلف ملکوں میں پھنس کر ایک دوسرے سے دور ہوگئے۔ کئی جوڑے ہنی مون پر نکلے ہوئے تھے۔ ائیرپورٹ بند ہوجانے کی وجہ سے ایسے ماحول سے دوچار ہوگئے جس کی انہوں نے کبھی توقع نہیں کی تھی۔
وبا کے دوران ایسا بھی ہوا کہ پیار کرنے والے ایک دوسرے کے دیدار کو ترس گئے۔
فاصلے سے تعلقات کی گرمجوشی کو برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ بعض لوگوں کے لیے فاصلہ درد سر کا باعث بن جاتا ہے جبکہ  کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں فاصلاتی تعلقات موزوں لگتے ہیں۔
کورونا وبا کے زمانےمیں کچھ ایسے جوڑے بھی دیکھنے میں آئے جن کے تعلقات وبا سے متاثر نہیں ہوئے۔ یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ہماری گفتگو کا موضوع تو وہ لوگ ہیں جو کورونا کے زمانے میں مشکلات سے دوچار ہیں۔

اپنے جذبات شیئر نہیں کیے تو دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے گا: فائل فوٹو

یہ درست ہے کہ بہت سارے ممالک نے بین الاقوامی پروازیں شروع کردی ہیں یا جلد شروع کردیں گے تاہم ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر اب بھی آسان نہیں بے حد مشکل ہے۔ سفر کے دوران وائرس لگنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
سفر سے واپسی پر 14 دن تک جبری ہاؤس آئسولیشن الگ ایک مشکل کام ہے۔
کورونا کی وبا نے ایسے جوڑوں کے لیے بڑا مسئلہ پیدا کیا ہے۔ جن کا کوئی ایک کسی ملک میں ملازم ہے اور اس کی اہلیہ دوسرے ملک میں بسی ہوئی ہے۔ چھٹی کا دورانیہ اتنا نہیں ہوتا کہ وہ 14 دن قرنطینہ میں گزارے اور باقی ماندہ ایام اپنی اہلیہ کے ساتھ رہ سکے۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں لمبی چھٹی مل سکتی ہے- اس طرح کے لوگوں کا بھی ایک زمرہ پایا جاتا ہے۔
مسئلہ دو ملکوں میں رہنے والے جوڑوں کا ہی نہیں بلکہ ایک ملک میں رہنے والے جوڑے بھی کورونا کی وجہ سے مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کورونا کے خطرات کی وجہ سے ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں یا حفاظتی ماسک اور سماجی فاصلے کی بندش کے باعث ملنے ملانے کا سلسلہ بے معنی بنا ہوا ہے۔

 

مختلف قسم کے  زمروں کے لیے درپیش صورتحال زحمت کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ہر ایک فکر مند ہے کہ پتہ نہیں حالات کب تک اس طرح چلیں گے۔ پتہ نہیں تناؤ کا ماحول کب ختم ہوگا کب کم ہوگا اور کب شوہر بیوی سے یا بیوی شوہر سے مل سکیں گے۔
یہ درست ہے  کہ پوری دنیا کورونا کی وجہ سے فکر مند ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کورونا وائرس کی خبروں میں الجھا ہواہے۔ کس ملک میں کتنے نئے کیس ریکارڈ پر آئے لیکن کوئی بھی انسان ہر وقت کورونا وائرس پر گفتگو نہیں کرسکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ  باہمی گفتگو کا بیشتر وقت کورونا کے لیے مخصوص کرنے سے بچنا ہو گا۔
مصیبت یہ ہے کہ  میاں بیوی بھی ایک دوسرے سے رابطے کرتے ہیں تو ان کا موضوع گفتگو جانے انجانے کوروناوائرس ہی بن جاتا ہے۔ کورونا سے ماحول میں کیا تبدیلیاں آرہی ہیں آس پاس کے لوگ کیسے ہیں۔ اس قسم کی گفتگو سے بے چینی اور کشیدگی کا ماحول برپا ہوجاتا ہے۔ اس قسم کے جذبات کو قابو کرنا آسان نہیں۔ اس قسم کی کوئی بھی کوشش فریقین کو ایک دوسرے سے جدا بھی کر سکتی ہے۔
اگر شوہر نے بیوی سے یا بیوی نے شوہر سے معلومات کا تبادلہ نہیں کیا۔ درپیش صورتحال کے بارے میں اپنے جذبات شیئر نہیں کیے تو دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے گا۔ بہتر ہوگا کہ گفت  و شنید میں کورونا ضرور زیر بحث آئے لیکن اتنا نہیں کہ یہ وائرس دونوں میں سے کسی کی بھی ذہنی حالت پر اثر انداز ہونے لگے۔
فریقین کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کو یہ احساس دلائیں کہ آزمائش کی اس گھڑی میں دونوں ایک دوسرے  کے مدد گار ہیں- جب جس کو جس طرح کا تعاون درکار ہوگا مہیا کیا جائے گا۔
ڈپریشن سے کیسے بچ  سکتے ہیں؟

آپ کو یہ بات مدنظر رکھنا ہوگی کہ اپنے شریک حیات سے فاصلے ہی سے تعلق رکھنا ضروری ہے: فائل فوٹو پکسابے

کورونا کی وبا سے قبل  شوہر اور بیوی کے تعلقات کے درمیان  رابطہ اور بات چیت  کا  خاص ماحول  قائم تھا۔ بعض لوگ دفتر سے بار بار رابطے  کرتے۔ بعض برائے نام کیا کرتے تھے۔ وبا کے زمانے میں صورتحال پیچیدہ ہوگئی ہے۔ فرض کریں کہ اگر میاں بیوی کورونا کی وبا سے قبل اوقات کار کے زمانے میں بات چیت نہیں کرتے تھے تو اب جبکہ ورک فرام ہوم  کا سلسلہ چل رہا ہے ایسے عالم میں ڈیوٹی کے دوران اگر شوہر بیوی سے یا بیوی شوہر سے رابطہ نہیں کریں گے تو  غلط فہمیاں جنم لیں گی۔
بہتر ہوگا کہ اس زمانے میں فریقین وقفہ برائے گفتگو کا سلسلہ بنائیں۔ ہمارا مقصد یہ نہیں کہ یہ طے کر لیں کہ انہیں اس قدر گفتگو کرنی ہےاور فلاں وقت بات چیت کرنی ہے۔ ہر ایک  اپنے حالات اور  وقت کے دورانیے کا تعین کرسکتا ہے۔
ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ میاں بیوی وبا کے دوران ایک دوسرے سے دور ہوں تو ایسی صورت میں ایس ایم ایس، وڈیوکالنگ یا وائس چیٹنگ وغیرہ کے ذریعے بھی بات چیت کا سلسلہ مناسب طریقے سے رکھا جاسکتا ہے۔
کچھ لوگ ایسے ہیں جو  فکر مند ہیں کہ جس طرح وہ وبا سے قبل زندگی گزار رہے تھے اب ایسا نہیں ہے۔ اس طرح کے لوگ بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں۔

  میاں بیوی بھی ایک دوسرے سے رابطے کرتے ہیں تو ان کا موضوع گفتگو جانے انجانے کوروناوائرس ہی بن جاتا ہے: فائل فوٹو پکسابے

بہتر ہوگا کہ اس قسم کے احساس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ رابطوں اور بات چیت پر وبا کے زمانے میں کوئی پابندی نہیں ہے۔
بعض لوگ اس سوچ کے ہوتے ہیں کہ بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس قسم کے لوگ شریک حیات سے نہ کورونا وائرس کے بارے میں بات کرتے ہیں اور نہ گھریلو امور کو زیر بحث لاتے ہیں۔ نہ محبت کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں۔ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بیوی کی آواز سنتے ہی  یا نظر آتے ہی منفی جذبات کا اظہار شروع  کردیتے ہیں۔ایسے لوگ غلطی پر ہیں۔
یہ درست ہے کہ حالات غیر معینہ مدت تک غیر یقینی ہیں۔ آپ کو یہ بات مدنظر رکھنا ہوگی کہ اپنے شریک حیات سے فاصلے ہی سے تعلق رکھنا ضروری ہے۔ آپ مستقبل کے حوالے سے پروگرام  بناسکتے ہیں کہ جیسے ہی وبا سے چھٹکارا ملے گا تو پرجوش زندگی گزارنے کے لیے یہ کیا جائے گا یا یہ پروگرام بنایا جائے گا۔ اس طریقہ کار کی بدولت آپ ڈپریشن سے بچ سکتے ہیں مگر یہ بات مد نظر رہے کہ کوئی بھی پروگرام کسی تاریخ سے نہ جوڑا جائے کیونکہ کسی کو نہیں پتہ کہ یہ وبا کب  ختم ہوگی اور کس حد تک ختم ہوگی۔

شیئر: