Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بین الافغان مذاکرات سے قبل طالبان قیادت میں'بڑی تبدیلی'

اقوام متحدہ نے امید ظاہر کی ہے کہ مذاکرات رواں ماہ شروع ہو جائیں گے (فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان میں طالبان نے افغان حکومت سے متوقع مذاکرات کے لیے اپنی صفوں میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے ملا عمر کے بیٹے ملا محمد یعقوب کو ملٹری ونگ کا سربراہ بنا دیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے طالبان حکام نے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے طالبان نے اپنی مذاکراتی ٹیم میں طاقتور شخصیات کو شامل کیا ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ 20 رکنی مذاکراتی ٹیم میں مزید چار ارکان کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔

 

طالبان ذرائع نے اے پی کو بتایا کہ یہ رد و بدل طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ کی نگرانی میں ہوا ہے جس کا مقصد تحریک کے فوجی اور سیاسی بازؤں پر اپنی گرفت مضبوط کرنا ہے۔
ادھر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے اچھی خبر ہے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے طالبان امن معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں۔
واشنگٹن میں موجود یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس کے ایشیا پروگرام کے نائب صدر اینڈریو وائلڈر نے کہا ہے کہ ’میں کہوں گا کہ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کیونکہ طالبان ایک ایسا وفد تیار کر رہے ہیں جو زیادہ تجربہ کار اور وسیع البنیاد ہے۔‘
افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے پیر کو ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’امریکہ نے معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت فوجیوں کی تعداد کم کرنے اور پانچ فوجی اڈے خالی کرنے کے وعدے پر عمل کیا ہے۔‘
’ہم قیدیوں کی رہائی، تشدد کم کرنے اور بین الاافغان مذاکرات پر زور دیں گے۔‘
انہوں نے افغان سکیورٹی فورسز پر حملوں کی مذمت کی اور یہ بھی کہا کہ طالبان نے امریکی اور نیٹو فورسز پر کوئی حملہ نہیں کیا ہے۔

ملا یعقوب کی تعنیاتی کے بعد طالبان نے افغان فورسز پر حملوں میں اضافہ کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری طرف طالبان نے امریکی فوجیوں کی تعداد کم کرنے کے عمل کا خیرمقدم کیا، لیکن ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ امریکہ نے افغان حکومت کی حمایت میں جن علاقوں میں جنگ نہیں ہو رہی وہاں مسلسل بمباری کی اور حملے کیے ہیں۔
طالبان نے امریکی پائلٹس پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ انہوں نے گذشتہ دس روز میں عام شہریوں اور انفراسٹرکچر پر بمباری کی۔
طالبان نے کہا ہے کہ ’یہ سب معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور جان بوجھ کر طالبان کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ بڑے حملے کریں۔‘
اے پی کے مطابق مئی میں ملا یعقوب کی تعنیاتی کے بعد طالبان نے افغان فورسز پر حملوں میں اضافہ کیا ہے جس کا مقصد مذاکرات میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق حیران کن طور پر پاکستان کے حمایتی سمجھے جانے والے ایک سینیئر طالبان رہنما امیر خان متقی کو مذاکراتی ٹیم سے علیحدہ کر دیا گیا ہے جس سے پاکستان کا اثر و رسوخ کم ہو سکتا ہے۔
ملا یعقوب پہلے ہی طالبان کے ڈپٹی ہیڈ تھے اور مجلس شوریٰ سے مشورہ کیے بغیر ان کی بطور ملٹری چیف تعیناتی سے شوریٰ کے اراکین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، تاہم طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ملا یعقوب نے شوریٰ سے ملاقات کر کے اختلاف رائے رکھنے والوں کا اعتماد حاصل کیا ہے۔

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کے حوالے اختلافات موجود ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں لیکن امید کی جا رہی ہے جولائی میں بین الافغان مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔
اقوام متحدہ نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ افغانستان میں موجود مختلف سیاسی اور متحارب دھڑوں کے درمیان مذاکرات رواں ماہ شروع ہوں گے۔
ان مذاکرات کی میزبانی کے لیے دنیا کے کئی ممالک نے حامی بھری ہے لیکن طالبان اور افغان حکومت کا کہنا ہے مذاکرات کا پہلا دور دوحہ میں ہو گا جہاں طالبان کا سیاسی دفتر موجود ہے۔
نئی مذاکراتی ٹیم میں ملا ہیبت اللہ کے قریبی ساتھی اور اہم رہنما عبدالحکیم کے ساتھ طالبان حکومت میں چیف جسٹس کے طور پر تعینات رہنے والے مولوی ثاقب بھی شامل ہیں۔

شیئر: