Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لہنگا، مہنگائی، قلفی سب ہی غلط؟

’لغت کے مطابق درست لفظ ’لہنگا‘ نہیں بلکہ ’لنہگا‘ ہے‘ (فوٹو: روئٹرز)
کیا خبر خود کو ہی اب بیچنا پڑ جائے یہاں
کس کو معلوم ستم کیسے یہ مہنگائی کرے
ہم نے استاد کو شعر سنایا تو بولے شعر ’نیاز حسین لکھویرا‘ کا ہے اور حسب حال ہے، مگر اس میں ایک ’لَوچا‘ ہے۔
وہ کیا؟
بولے: درست لفظ ’مہنگائی‘ نہیں ’منہگائی‘ ہے۔ یعنی ’مہنگا‘ نہیں منہگا۔ 
پھر تو ’لہنگا‘ بھی لہنگا نہیں بلکہ ’لنہگا‘ ہے؟ 
جی بالکل، درست لفظ ’لنہگا‘ ہی ہے۔ پھر’مہندی‘ بھی اصل میں’منہدی‘ ہے۔ ذرا لفظ ’قلفی‘ پر غور کرو آسانی سے سمجھ جاؤ گے کہ اصل لفظ قلفی نہیں ’قفلی‘ ہے۔ اسے ’قفل‘ یعنی تالے سے نسبت ہے۔ جب اوپر تلے کوئی دو برتن جُڑ جائیں یا پھنس جائیں تو اسے ’قفلی ہونا‘ کہتے ہیں۔
اور تو سب ٹھیک ہے پر قلفی کا ’قفلی‘ ہونا سمجھ نہیں آیا۔ ہم نے شکوہ کیا۔
بولے: اس میں سمجھ نہ آنے والی کون سی بات ہے۔ غور کرو کہ مخصوص سانچے میں دودھ، کھویا، شکر اور خشک میوہ جات بند کر کے جب برف میں لگائے جاتے ہیں تو انجام کار سب اجزا باہم جُڑ اور جم جاتے ہیں، دوسرے لفظوں میں ’قفلی‘ ہوجاتے ہیں۔ 
اب اس ’قفلی‘ کو آئس کریم سے سمجھو۔ آئس کریم کو فارسی میں ’بستنی‘ کہتے ہیں۔ ایک مشہور فارسی لغت میں ’بستنی‘ کے ذیل میں درج ہے:
’نوعی خوراک منجمد کہ از شیر، شکر، تخم‌ِ مرغ و مواد دیگر تهیه می‌ شود۔‘
یعنی دودھ، شکر، انڈوں اور دیگر اجزا سے تیار ہونے والی ایک منجمد خوراک۔ اس تعریف میں ’منجمد‘ کو ذہن میں رکھو اور ’بستنی‘ کے لفظی معنی پر غور کرو۔
اس بستنی کی اصل ’بستن‘ ہے جس کے معنی میں باندھنے، جوڑنے اور جمنے کا مفہوم شامل ہے۔ اسی سے لفظ بستہ، یخ بستہ، دست بستہ اور کمر بستہ وغیرہ ہیں۔ مختصر یہ کہ اردو میں جو ’قفلی‘ ہے وہ ایک طرح سے فارسی میں ’بستنی‘ ہے۔ دونوں ’منجمد‘ ہوتی ہیں۔

لفظ ’فتیلہ‘ فارسی کا لفظ ہے جس کی اصل ’فتیل‘ ہے، جو چراغ کی بتی کو کہتے ہیں (فوٹو: فیس بک)

اب لفظ ’فلیتہ‘ پر آجاؤ۔
کہہ دیں یہ لفظ بھی غلط  ہے۔ ہم نے طنز کیا۔
استاد ہماری گستاخی کو نظر انداز کر گئے اور بولے: جسے ہم ’فلیتہ‘ بولتے اور لکھتے ہیں وہ اصل میں ’فتیلہ‘ ہے۔ لغت کے مطابق یہ فارسی لفظ ہے، اس کی اصل ’فتیل‘ ہے، جو چراغ کی بتی کو کہتے ہیں۔ اسی سے لفظ ’فتیل سوز‘ یعنی شمع دان ہے۔
پھر ’فتیلہ‘ ہے۔ جس کے معنی بتّی یا بٹی ہوئی چیز ہیں۔ لفظ ’فتیلہ‘ کو محاورے ’فتیلہ دکھانا‘ میں دیکھ سکتے ہو۔ میر و میرزا سمیت ہمارے معتبر شاعروں نے اس لفظ کو اسی طرح برتا ہے۔ دیکھو میرزا غالب کیا کہہ گئے ہیں:  
یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا
یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا
سوال کیا کہ آپ کے بیان کی رو سے جو الفاظ  لکھنے اور بولنے میں غلط رواج پا چکے ہیں کیا اب ان کی درستی پر اصرار کیا جاسکتا ہے؟
اگر نقض امن کا خطرہ نہ ہو یا نوبت دل آزاری تک نہ پہنچے تو احسن طریقے سے اپنی بات منوائی جاسکتی ہے، کیوں کہ معتبر حوالے ان الفاظ کے درست املا و تلفظ کے حق میں ہیں۔ پھر کچھ توقف کے بعد بولے: برا نہ جانو تو ایک بات اور عرض کردوں جسے ہم ’نقص امن‘ کہتے ہیں وہ اصل میں ’نقض امن‘ ہے۔ 
کیا ’نقص امن‘ کا مطلب امن کو نقصان پہنچنا نہیں ہے؟

’بد امنی‘ حقیقت میں ’بے امنی‘ ہے۔ ’بے امنی‘ امن کی ضد ہے (فوٹو: اے ایف پی)

بالکل نہیں ہے۔ ترکیب ’نقض امن‘ ہے۔ اس ’نقض‘ کے معنی میں ’توڑنا، گرانا، پھاڑنا، منسوخ اور مخالفت کرنا‘ شامل ہیں۔ اسے تم ’نقض الوضو‘(وضو توڑنا) اور ’نقض العہد‘(عہد توڑنا) سے سمجھ سکتے ہو۔ ایسی ہی ایک غلطی ’قمیص‘ سے متعلق ہے جسے غلط طور پر ’قمیض‘ بولتے ہیں۔
 لگے ہاتھوں یہ بھی سمجھ لو کہ جسے تم ’بد امنی‘ کہتے ہو وہ حقیقت میں ’بے امنی‘ ہے۔ ’بے امنی‘ امن کی ضد ہے، ایسے میں ’بد امنی‘ بے معنی ٹھہرتا ہے۔
جب اردو میں لفظ ’خوش امن‘ ہے تو ’بدامن‘ بھی ہوگا اور اسی سے ’بد امنی‘ بنا ہوگا۔ ہم نے قیاس کے گھوڑے دوڑائے۔
یہ ’خوش امن‘ تم نے کہاں پڑھ لیا؟ استاد نے پُر تشویش انداز میں پوچھا۔
پڑھنا کیا ہے سامنے کی بات کہ ساس کو ’خوش امن‘ کہتے ہیں۔
مسکرا کر بولے اس بات پر تمہاری گوش مالی بنتی ہے۔
وہ کیوں؟ ہم نے حیران ہوکر پوچھا
بولے: برخوردار جسے تم ’خوش امن‘ کہہ رہے ہو وہ ’خوش دامن‘ ہے۔

گوش فارسی لفظ ہے اس سے بننے والے بہت سے الفاظ اردو میں عام استعمال ہوتے ہیں، جیسے ’خرگوش‘ (فوٹو: روئٹرز)

ہم نے جھینپ مٹانے کو پوچھا، استاد! ابھی جو آپ نے ’گوش مالی‘ اور ’برخوردار‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں ان کیا مطلب ہے؟
بولے: ’گوش مالی‘ کی ترکیب گوش یعنی کان اور ’مال‘ یعنی رگڑنا یا مَلنا سے مل کر بنی ہے۔ یوں ’گوش مالی‘ کے معنی ہوئے ’کان اینٹھنا‘ یا ’کان کھینچنا‘۔
گوش فارسی لفظ ہے اس سے بننے والے بہت سے الفاظ اردو میں عام استعمال ہوتے ہیں، جیسے گدھے جیسے کان والے جانور کو ’خرگوش‘ کہتے ہیں، ایسے ہی آواز پر کان دھرنے کو ’گوش بر آواز‘ یا بات بھرپور توجہ سے سننے کو ’ہمہ تن گوش ہونا‘ کہتے ہیں۔
جب کہ لفظ ’مال‘ فارسی مصدر ’مالیدن‘ سے ہے جس کے معنی میں رگڑنا ، مَلنا ، ڈبونا اور چھونا شامل ہے۔ پھر مجازاً تنبیہ، ملامت یا سرزنش کو بھی ’مالیدن‘ کہتے ہیں۔ اردو کا ’رُومال‘ فارسی میں ’دست مال‘ ہے۔ یعنی ایک کو ’چہرے‘ سے نسبت ہے تو دوسرے کا ’ہاتھ‘ سے تعلق ہے۔’رومال‘ چہرے صاف کرنے والا اور’دست مال‘ ہاتھ پونچھنے والا ہے۔

درحقیقت ’برخوردار‘ ایک دعائیہ جملہ ہے (فوٹو: پیکسل)

اب ’برخوردار‘ پر آجاؤ۔ یہ صفت ہے اور اس کے معنی میں فرزند، ظفرمند، کامیاب، جیتے رہو اور سلامت رہو کے معنی شامل ہیں۔ 
درحقیقت ’برخوردار‘ ایک دعائیہ جملہ ہے، جو تین کلموں بر بمعنی (نیکی)، خور بمعنی کھاجا (نعمتِ دنیا) اور دار بمعنی رکھ جا (میراث) پر مشتمل ہے۔
ہم نے کہا استاد کچھ اور عطا ہو۔
بولے: آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے باقی آئندہ کے لیے اٹھا رکھو اور ہمیں اجازت دو۔

شیئر: