Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آم کا مقابلہ اور مقابل اب بھی کوئی نہیں؟

غالب آخری عمر میں بھی ایک نشست میں جتنے آم کھا لیتے تھے ہم اس کی  محض آرزو ہی کرسکتے ہیں (فوٹو:ٹوئٹر)
میرزا غالب نے جب یہ کہا کہ ’آم کا کون مردِ میداں ہے‘؟ تو مطلب یہ تھا کہ ’آم‘ کا مقابلہ اور مقابل کوئی نہیں ہے۔ بات ایسی غلط بھی نہیں کہ آم تخمی ہو یا قلمی، ٹپکے کا ہو یا پال کا، اس کے چاہنے، کھانے اور گن گانے والوں میں  خواص و عوام دونوں شامل ہیں۔
’لاچین ترک‘ امیر خسرو نے آم کو ’نغزترین میوۂ ہندوستان‘ پکارا تو ’ایبک ترک‘ میرزا غالب نے آم کی خوبیوں پر خوبصورت مثنوی تخلیق کی۔ مثنوی کا عنوان ’در صفتِ انبہ‘ ہے۔ اس کےایک شعر میں ’آم‘ کو شہد کے سربہمر گلاس سے تشبیہ دی گئی: 
انگبیں کے بہ حکم ربّ الناس
بھر کے بھیجے ہیں سر بمہر گلاس
غالب آم کی فصل میں غزل بھی نہ کہتے کہ ساری توجہ آم کھانے پر ہوتی۔ وہ آم کے معاملے میں جذباتی واقع ہوئے تھے۔ احباب جذبات کا احترام کرتے اور تحفے میں آم بھجواتے جنہیں غالب بصد شوق کھاتے۔
روایت ہے کہ’ میرزا کے دوست حکیم رضی الدین خان کو آم پسند نہیں تھے۔ ایک دن وہ میرزا کے مکان پر برآمدے میں بیٹے تھے۔ ایک گدھے والا اپنا گدھے لیے ہوئے گلی سے گزرا۔
آم کے چھلکے پڑے تھے۔ گدھے نے سونگھ کر چھوڑ دیے، حکیم صاحب نے کہا،’دیکھیے آم ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا،‘ میرزا نے فوراً جواب میں کہا ،’ بے شک گدھا آم نہیں کھاتا۔'
غالب آخری عمر میں بھی ایک نشست میں جتنے آم کھا لیتے تھے ہم اس کی  محض آرزو ہی کرسکتے ہیں۔ ’شیخ محسن الدین‘ سے اپنی جوانی اور پیرانہ سالی میں آم خوری کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’بے تکلف عرض کرتا ہوں۔ اتنے آم کھاتا تھا کہ پیٹ بھر جاتا تھا اور دَم پیٹ میں نہ سماتا تھا، اب بھی اسی وقت کھاتا ہوں مگر دس بارہ، اگر پیوندی آم بڑے ہوئے تو پانچ سات۔‘
غالب کے سوانح نگار اور ان کے شاگرد رشید مولانا الطاف حسین حالی کے بقول’غالب ہندوستان کے واحد شاعر تھے جنہوں نے آم کی سب سے زیادہ اقسام کا ذائقہ چکھا ہوا تھا‘۔ بات صرف آم کھانے تک محدود نہیں تھی بلکہ حالی ہی کے مطابق غالب آموں کی تاریخ کا کامل علم بھی رکھتے تھے۔ 

غالب آم کی فصل میں غزل بھی نہ کہتے کہ ساری توجہ آم کھانے پر ہوتی (فوٹو:اے ایف پی)

آم کے تعلق سے غالب کا ذکر طویل ہے، سو اسے یہیں تمام کرتے اور اردو کے سب سے بڑے مرثیہ نگار میرانیس کی بات کرتے ہیں۔ میرانیس کے تذکرہ نگار ان کی سنجیدگی، متانت اور کم گوئی کے گواہ ہیں۔
ان کی شخصیت میں رکھ رکھاؤ اور طبیعت میں ٹھراؤ تھا۔ پہننے اوڑھنے اور کھانے پینے میں ان کا انتخاب اپنی مثال آپ تھا۔ صرف ایک پینے کے پانی کے لیے جو اہتمام ہوتا آج ’منرل واٹر‘ پینے والے اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
ان کے تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ: 'ان کے پینے کا پانی پتھر کے ایک کاسہ نما برتن میں بھرا جاتا اور اس میں تپتے ہوئے لوہے کا ٹکڑا ڈال دیا جاتا تھا۔
یہ برتن ’آہن تاب‘ کہلاتا تھا۔ اس کے پیندے میں ایک سوراخ تھا جس سے ٹپکتا ہوا پانی نیچے لگے برتن میں جمع کرلیا جاتا ۔انیس یہی پانی پیتے تھے۔ اس ’آب آہن تافتہ‘ کے بہت سے طبی فوائد تھے۔‘
اس قدر نفیس طبیعت کے مالک میرانیس کی آم سے رغبت کسی طور بھی میرزا غالب سے کم نہ تھی۔’ آم ان کا پسندیدہ پھل تھا ۔
بنارس کا لنگڑا آم بہت شوق سے کھاتے تھے۔ ایک بار حکیم سید علی نے انھیں آموں کا ٹوکرا بھیجا تو انیس نے ’آنبۂ شیریں ادا ‘ اور ’ میوۂ مراد‘ کی رسید میں انھیں لکھا کہ اس نعمت کا شکریہ کس طرح ادا کروں کہ شیرینی کی وجہ سے ہونٹ سے ہونٹ الگ ہی نہیں ہورہے ہیں۔'

قیاس یہ کہتا ہے کہ اکبر تحفے میں آئے آم خود ہی نہیں کھاتے تھے بلکہ اس نعمت میں دوستوں کو بھی شریک کرتے تھے (فوٹو:اے ایف پی)

اب بات ہوجائے لسان العصر اکبر الہٰ آبادی کی، جو اپنے پیشرو شاعروں کی طرح آموں کے رسیا تھے۔اس حوالے سے ان کا ’آم نامہ‘ لائق توجہ ہے۔ ’آم نامہ‘ دراصل بے تکلف دوست ’منشی نثار حسن‘ کے نام پیغام ہے جس میں اکبر لکھتے ہیں:
نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجیے
اس فصل میں جو بھیجیے بس آم بھیجیے
ایسا ضرور ہو کہ انہیں رکھ کے کھا سکوں
پختہ اگرچہ بیس تو دس خام بھیجیے
معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس 
سیدھے الٰہ آباد مرے نام بھیجیے
ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں
تعمیل ہوگی پہلے مگر دام بھیجیے
قیاس یہ کہتا ہے کہ اکبر تحفے میں آئے آم خود ہی نہیں کھاتے تھے بلکہ اس نعمت میں دوستوں کو بھی شریک کرتے تھے۔ کم از کم علامہ اقبال کی حد تک تو اس بات کی شہادت موجود ہے۔ آم علامہ کو بھی مرغوب تھے۔ اس بارے میں ان کا بیان علمی ذوق اور آم کے شوق کا نقطۂ اتصال ہے، کہتے ہیں:
’آموں کی کشش‘ کششِ علم سے کچھ کم نہیں۔ یہ بات بلا مبالغہ عرض کرتا ہوں کہ کھانے پینے کی چیزوں میں صرف آم ہی ایک ایسی شے ہے جس سے مجھے محبت ہے۔‘

بنگال کی نسبت سے عرض ہے کہ بنگلہ دیش میں آم کا پیڑ ’قومی درخت‘ ہے جب کہ پاکستان میں آم کو ’قومی پھل‘ کا درجہ حاصل ہے (فوٹو:اے ایف پی)

علامہ کو جب اکبر الہٰ آبادی کی جانب سے ’لنگڑے آم‘ موصول ہوئے تو آپ نے پارسل کی رسید پر یہ شعر بھی درج کردیا:
اثر یہ تیرے انفاس مسیحائی کا ہے اکبر
الٰہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک آیا
جس طرح شاہوں میں تیمور لنگ کا دبدبہ تھا ایسے ہی کبھی آموں میں لنگڑے کی دھوم تھی مگر انتظار حسین کے بقول آموں کی دوڑ میں لنگڑا پیچھے رہ گیا اب کون اس کا نام لیوا ہے۔ اب تو چونسے کا بول بالا ہے۔
خیر ذکر تھا آم و اقبال کا تو اس حوالے سے اقبال کے سوانح نگار اور ہم جلیس ’عبد المجید سالک‘ کہتے ہیں :
’ایک دن تیسرے پہر حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت علامہ بدستورتکیہ لگائے چار پائی پر لیٹے ہیں اور پاس ہی ایک تپائی پر کوئی سیر بھر کا ’بمبئی آم‘ پلیٹ میں رکھا ہے، میں نے کہا ،حضرت یہ کیا ؟ حکیم صاحب نے تو پرہیز بتایا ہے۔ کہنے لگے ہاں! لیکن ایک آم کھانے کی تو اجازت ہے اور بہرِ حال یہ آم ایک ہی ہے دو تو نہیں۔'
ہم ایک مدت تک ’ملیح آباد‘ کو ’جوش ملیح آبادی‘ کی نسبت سے جانتے تھے۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ ملیح آباد کی وجہ شہرت آموں کے باغات ہیں۔ لکھنؤ کے نواح میں واقع اس خطے کو ہندوستان میں آموں کی جنت کا درجہ حاصل ہے۔
اب بنگالی زبان کے نوبل انعام یافتہ شاعر رابندرناتھ ٹیگور کے ذکر پربات تمام کرتے ہیں۔ ٹیگورنے آم کی نسبت سے دونظمیں لکھی ہیں۔ ایک ’امرمونجوری‘ یعنی آم کی کلیاں یا  شگوفے اور دوسری’کچا آم‘۔
بنگال کی نسبت سے عرض ہے کہ بنگلہ دیش میں آم کا پیڑ ’قومی درخت‘ ہے جب کہ پاکستان میں آم کو ’قومی پھل‘ کا درجہ حاصل ہے۔

شیئر: