Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حسن ابدال کے غار رہائش گاہ میں تبدیل

گذشتہ سال کے آخر میں جب کورونا وائرس کی وبا پھیلنا شروع ہوئی تو اس پر قابو پانے کے لیے قرنطینہ مراکز قائم کرنے کی اشد ضرورت محسوس ہوئی جہاں متاثرہ مریضوں کو کم از کم 14 دن کے لیے دنیا سے بالکل الگ تھلگ رکھا گیا۔ 
ہسپتالوں میں قائم کورونا وارڈز کے علاوہ ریل گاڑیوں کے ڈبوں، سکولوں اور بڑی سرکاری عمارتوں کو قرنطینہ مراکز میں تبدیل کر دیا گیا۔
 لیکن آج سے تقریباً ایک صدی پہلے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے خطہ پوٹھوہار میں ایسے قرنطینہ مراکز بنائے گئے تھے جہاں روایت کے مطابق مقامی لوگ کسی بھی وبا کے پھوٹنے کی صورت میں خود کو آبادی سےعلیحدہ کر لیتے تھے۔
اسلام آباد سے تقریباً 65 کلو میٹر کے فاصلے پر حسن ابدال شہر میں منوں نگر نامی گاؤں میں ایسے درجنوں غار موجود ہیں جن میں آج بھی مقامی لوگ آباد ہیں۔ مٹی کے بڑے ٹیلوں کو کھود کر مقامی لوگوں نے ماڈرن گھر کی شکل دے کر رہائش کے قابل بنایا ہے۔

وبا سے بچاؤ کے لیے ’قدرتی قرنطینہ‘

پرانے وقتوں میں یہ غار شہری آبادی سے دور ہوتے تھے جہاں صرف جانوروں کو رکھا جاتا تھا۔ روایت کے مطابق انیسویں صدی میں اس علاقے میں جب طاعون کی وبا پھوٹی تو یہاں آباد ایک ہندو شخص نے بچاؤ کی غرض سے غار بنائے۔
حسن ابدال کے گاؤں منوں نگر کے علاقہ اقبال نگر کے ایک غار میں گذشتہ 16 برسوں سے مقیم ضیا محمود نے بتایا کہ ایک پرانی روایت سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہے کہ سنہ1837 میں جب طاعون کی وبا پھیلنا شروع ہوئی تو ایک ہندو رہائشی نے سب سے پہلے دو غار بنائے، ایک اپنے لیے اور ایک اپنے جانوروں کے لیے۔
’اُس ہندو نے طاعون کی وبا سے بچاؤ کے لیے ان غاروں میں قرنطینہ کر لیا تھا، تو وہ خود اور اس کے جانور بھی وبا سے محفوظ رہے۔‘

صدیوں پہلے پوٹھوہار کی غاروں میں قرنطینہ مراکز قائم کیے گئے۔ فوٹو: اردو نیوز

غاروں میں رہائش کے کامیاب تجربے کے بعد دیگر مقامی افراد نے بھی غاروں کو اپنا مسکن بنانا شروع کر دیا، خاص کر جب انہیں کسی وبا کا سامنا ہوتا۔
’لوگو ں نے دیکھا کہ یہ تو بڑی کارآمد چیز ہے تو غار بنانا شروع کر دیے۔‘

پوٹھوہار خطے میں قبل از تاریخ کے غاروں کے آثار 

ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق پوٹھوہار خطے میں ایسی متعدد غاریں ہیں جنہیں انسان رہائش کے لیے استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔ ٹیکسلا انسٹی ٹیوٹ آف ایشین سیولائزیشن کے سربراہ ڈاکٹر غنی الرحمٰن نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس علاقے میں پتھر کے زمانے سے غاروں کو رہائش کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
’راک شیلٹر رہائش کے لیے بہترین جگہ ہوتی تھی جو عام طور پر پانی کے قریب اور ہوا دار ہوتی تھیں۔‘
حسن ابدال میں مٹی کے پہاڑوں میں قائم غاروں کے بارے میں ڈاکٹر غنی الرحمان کا کہنا تھا کہ یہ زیادہ قدیم تو نہیں لیکن تقریباً پچاس سے دو سو سال پرانے ہیں جہاں کچھ مقامی لوگوں نے طاعون جیسی وبا سے محفوظ رہنے کے لیے پناہ لی تھی۔

پہلی غار 1837 میں طاعون کی وبا سے بچنے کے لیے ایک ہندو نے بنائی۔ فوٹو اردو نیوز

غار کی سادہ زندگی سے ماڈرن غار نما گھروں کا سفر

ان غاروں کے اولین مکینوں میں سے اگر کوئی آج دوبارہ وارد ہو جائے تو دیکھ کر حیران رہ جائے گا کہ آج ان غاروں کو رہائش کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک سہولت سے آراستہ کر دیا گیا ہے۔ غاروں کو جدید گھروں کی شکل دینے کا کام ہر کسی کو نہیں آتا۔ اس علاقے میں کچھ ایسے ماہر افراد ہیں جنھوں نے غاروں میں گھر تعمیر کرنے کا فن اپنے آباؤ اجداد سے سیکھا ہے۔
تقریباً پانچ دہائیوں سے غار نما گھر میں آباد محمد بشیر نے بتایا کہ ان کے باپ دادا غاروں کو گھروں میں تعمیر کرنے کا کام کرتے آ رہے ہیں۔
’اب ماڈرن گھر بھی لوگ بنانے لگے ہیں۔ آٹھ گز کا جو گھر بنتا ہے اس پر دس سے پندرہ دن لگ جاتے ہیں۔‘

قدرتی ایئر کنڈیشن 

جون، جولائی کی شدید گرمی میں بھی یہ قدرتی غار ایسے ٹھنڈے رہتے ہیں جیسے یہاں 24 گھنٹے کسی نے اے سی لگایا ہو۔ وینٹیلیشن کا نظام ان غار نما گھروں میں تازہ اور ٹھنڈی ہوا کی فراہمی یقینی بناتا ہے۔ صرف اے سی ہی نہیں بلکہ غار کے مکینوں کو موسم سرما میں ہیٹر کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔

ان غاروں کو گھروں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ فوٹو اردو نیوز

غار نما گھر کے رہائشی ضیا محمود کہتے ہیں کہ ’گرمیوں میں اے سی اور سردیوں میں ہیٹر کی ضرورت نہیں پڑتی۔ روشنی کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔‘ 

کیا غار نما گھروں میں موبائل فون استعمال کیا جا سکتا ہے؟ 

بغیر موبائل فون کے جدید طرز زندگی کا تصور ہی ممکن نہیں لیکن ہر وقت الیکٹرانک ڈیوائسز کے استعمال کے منفی اثرات کو بھی اب تسلیم کیا جا رہا ہے۔ تاہم یہ غار اپنے مکینوں کو ہر طرح کے مواصلاتی سگنلز کی قید سے ہی آزاد کر دیتے ہیں۔ غار میں داخل ہونے کے بعد باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں رہ سکتا۔ یوں موبائل کی سکرین پر گزرنے والے وقت بھی کافی حد تک کم ہو جاتا ہے۔
دنیا سے کچھ دیر کے لیے کٹ جانے کا نقصان اپنی جگہ لیکن مقامی لوگوں پر اس کے مثبت ’سائیڈ افیکٹس‘ مرتب ہو رہے ہیں۔ رہائشی ضیا محمود مزید کہتے ہیں کہ ’غار میں وقت گزار کر انسان پرسکون رہتا ہے۔ اس کا بی پی ہر چیز نارمل ہو جاتی ہے، ٹینشن بھی ختم ہو جاتی ہے کیونکہ ریڈی ایشن یا کسی بھی طرح کے سگنل غار میں نہیں پہنچتے۔‘

غار قدرتی طور سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈی رہتی ہے۔ فوٹو اردو نیوز

زلزلہ پروف؟ 

مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ زلزلے سے ان غاروں کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا۔ ضیا محمود کہتے ہیں کہ ’سب سے بڑی خوبی ہی یہی ہے کہ یہ غار زلزلہ پروف ہیں اور ان میں کسی قسم کی ریڈی ایشن نہیں پہنچ سکتیں۔ اس کے اندر محسوس ہی نہیں ہوتا کہ زلزلہ آیا ہے یا نہیں آیا کیونکہ یہ مٹی کے ساتھ مٹی ہے۔‘ 
اگر شہروں میں قائم کیے گئے قرنطینہ سینٹرز سے اکتا گئے ہوں تو حسن ابدال کے قدرتی غاروں میں کچھ دن قرنطینہ میں گزار کر تازہ دم اور صحت یاب ہوا جا سکتا ہے۔

شیئر: