Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صحافی مطیع اللہ جان بازیاب ہو گئے

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مطیع اللہ جان کے لاپتہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے: فوٹو مطیع اللہ جان فیس بک
اسلام آباد سے دن دیہاڑے ’اغوا‘ ہونے والے صحافی مطیع اللہ جان بازیاب ہو گئے ہیں۔
مطیع اللہ جان نے اردو نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ اغوا کاروں نے انہیں رات 11 بجے کے قریب فتح جنگ کے پاس سڑک پر چھوڑ دیا اور وہاں سے چلے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اغوا کاروں نے انہیں چھوڑنے سے پہلے ان کے گھر والوں کو فون کیا کہ وہ انہیں آ کر لے جائیں۔
مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی تھی۔ ’اغوا کرنے کے بعد انہوں نے مجھے جائے وقوعہ کے کہیں قریب ہی رکھا اور پھر شام کو وہاں سے نکال کر فتح جنگ کے قریب سڑک پر چھوڑ کر چلے گئے۔‘
اس سے قبل ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مطیع اللہ جان کے بھائی کی درخواست پر چیمبر میں سماعت کرتے ہوئے صحافی کو بازیاب کرانے کا حکم دیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر اور آئی جی پولیس کو نوٹس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اگر مطیع اللہ جان کو بازیاب نہیں کرایا جا سکا تو فریقین کل ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔‘
عدالت نے کہا کہ درخواست گزار کے مطابق صحافی مطیع اللہ جان کو دن دیہاڑے اسلام آباد سے اغوا کیا گیا ’یہ مبینہ طور پر جبری گمشدگی کا مقدمہ ہے۔‘
 
صحافی مطیع اللہ جان کی اہلیہ کنیز صغریٰ نے ان کے شوہر دارالحکومت اسلام آباد سے منگل کو دن گیارہ بجے سے لاپتہ ہوئے۔ 
کنیز صغریٰ نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے بتایا کہ مطیع اللہ جان انہیں منگل کی صبح سیکٹر جی سکس ون میں سکول چھوڑنے آئے تھے تاہم اس کے بعد سے ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ 
کنیز صغریٰ نے مزید بتایا کہ وہ مطیع اللہ جان کے ساتھ صبح ساڑھے نو بجے گھر سے نکلیں اور دس بجے سکول کے باہر ڈراپ کرنے کے بعد وہ چلے گئے تاہم دن ڈیڑھ بجے کے لگ بھگ ان کو معلوم ہوا کہ ان کی گاڑی سکول کے باہر کھڑی ہے اور مطیع اللہ جان لاپتہ ہیں۔
مطیع اللہ جان کی اہلیہ نے بتایا کہ سکول کے باہر کھڑی گاڑی میں ان کا ایک موبائل فون پڑا ہوا تھا۔
ادھر بلاول بھٹو زرداری نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر صحافی کی واپسی یقینی بنائے۔
مطیع اللہ جان کے بھائی  شاہد اکبر عباسی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
انہوں نے درخواست میں لکھا کہ ان کے بھائی کو 'سیکٹر جی 6 سے اغوا کیا گیا اور عدالت ان کی فوری رہائی کا حکم دے۔‘
درخواست میں  وزارت داخلہ، دفاع اور پولیس کو فریق بنایا گیا۔
حقوق انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان نے بھی اپنے بیان میں صحافی مطیع اللہ جان کے لاپتہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا کیا۔

مطیع اللہ جان کی رہائی کے بعد صحافی اعزاز سید کے ٹوئٹر اکاونٹ پر جاری کردہ تصویر

دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران صحافی مطیع اللہ کی گمشدگی کے بارے  میں پوچھے گئے سوال پر کہا کہ کابینہ اجلاس کے بعد انہیں اس کی خبر ملی، جس پر فوری وزیر داخلہ اعجاز شاہ کو فون کیا۔
شبلی فراز نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ یہ بات تو طے ہے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔
’میرے پاس اس بارے میں معلومات کم ہیں، تاہم یقین دلاتا ہوں کہ بازیابی کے لیے حکومت اپنا فرض پورا کرے گی۔‘
 

شیئر: