Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'زراعت کے شعبے میں راتوں رات منافع نہیں'

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ و تحقیق اور سابق سپیکر قومی اسبلی سید فخر امام نے کہا ہے کہ آئین اور سپریم کورٹ نے بتا دیا ہے کہ دوہری شہریت والے منتخب نہیں ہو سکتے۔ اب فیصلہ ان کے ضمیر یا ان کو منتخب کرنے والوں نے کرنا ہے۔
اردو نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں سید فخر امام نے کہا کہ 'میں منتخب رکن اسمبلی ہوں اور آزاد حیثیت میں ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ لیے ہیں۔ منتخب اور غیر منتخب دونوں کی معاشرے میں ضرورت تو ہے، تاہم جو نمائندہ حکومتیں ہوتی ہیں ان کو پانچ سال بعد عوام کے پاس جانا ہوتا ہے۔ عوام ان کو اپنے ووٹ کے ذریعے ہاں بھی کر سکتے ہیں اور نہ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر عوام ان کی کارکردگی پر فیصلہ کریں تو زیادہ بہتر ہے۔'
انھوں نے کہا کہ 'ہماری نمائندہ حکومتی نظام کی سو سالہ تاریخ ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح ممبئی سے 1910 سے 1946 تک منتخب ہو کر آئے تھے۔ ہمارے لوگ کچھ منتخب اور کچھ غیر منتخب ہیں۔ غیر منتخب لوگوں کو مشیر لگا دیا جاتا ہے۔ ان کا اپنا ہی سلسلہ ہوتا ہے۔ ملکی نظام چلانے کے لیے منتخب اور غیر منتخب افراد دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کس کی زیادہ ضوروت ہوتی ہے اس کا فیصلہ وزیراعظم کو کرنا ہوتا ہے۔'

 

فخر امام کا کہنا تھا کہ 'جو صحیح معنوں میں قوم کی خدمت کرے وہی بہتر ہے، تاہم مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہونا چاہیے۔ قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح نہیں دینی چاہیے یہ اصل چیز ہے جس کو مد نظر رکھنا چاہیے۔'
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ 'سمندر پار پاکستانیوں کے لیے پاکستان میں زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں، تاہم راتوں رات منافع کمانے کے بجائے پانچ سات سال تک صبر کے ساتھ کام کرنے والے ہی کامیاب ہوسکتے ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ 'سمندر پار پاکستانی ہمارا سرمایہ ہیں۔ اس سال انھوں نے 23 ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھیجیں، جبکہ پاکستان کی برآمدات 21 ارب ڈالر کی تھیں، یعنی ترسیلات زر سے برآمدات کے مقابلے میں زیادہ ڈالر پاکستان آئے۔ سمندر پاکستانی مختصر اور عارضی مدت کے لیے پاکستان آتے ہیں تو ان کو رہائش کے مسائل ہوتے ہیں، اس لیے وہ زیادہ تر سرمایہ کاری مکانات کے شعبے میں کرتے ہیں۔ پھر کچھ صنعت اور خدمات کے شعبے کی طرف جاتے ہیں۔'
سید فخر امام نے کہا کہ 'سمندر پار پاکستانی زراعت میں کامیابی کے لیے آم کی کاشت، رس والے پھلوں کی کاشت اور اب زیتون کی کاشت کر کے پیسے کما سکتے ہیں۔ تاہم اس کے لیے وہ لوگ کامیاب نہیں ہو سکتے جن کو راتوں رات منافع کمانے کی عادت ہے، بلکہ وہ لوگ کامیاب ہوں گے جن کے مزاج میں ٹھہراؤ ہوگا اور وہ تین پانچ یا سات سال دیکھ کر کام کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایسے لوگوں کے لیے بہت مواقع ہیں۔ وہ ویسے فارمنگ بھی کر سکتے ہیں۔ کسی کے ساتھ شراکت داری بھی کر سکتے ہیں۔ ابھی بھی کچھ لوگ کر رہے ہیں لیکن ان کی تعداد تھوڑی ہے جس میں وسعت لانے کی ضرورت ہے۔'

فخر امام نے کہا کہ کٹائی کے بعد گندم اور آٹے کی قیمتیں اوپر جانا حیران کن ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں غذائی تحفظ کے حوالے سے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 'کورونا کے باعث دنیا کی وہ معیشتیں جو گذشتہ دس سال سے ترقی کر رہی تھیں ان کو بھی دھچکا لگا ہے اور ان کو بھی غذائی تحفظ کی طرف توجہ دینا پڑی ہے۔ پاکستان ایک لحاظ سے تو خود کفیل ہے لیکن اس سال گندم کی پیداوار کا اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسی وجہ سے 15 ملین ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور 11 ملین ٹن کے لیے نجی شعبے کو لائسنس بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ 'کٹائی کے فوراً بعد گندم اور آٹے کی قیمتیں اوپر جانا اس لیے بھی حیران کن ہے کہ ایک تو زمیندار اپنے پاس اپنی ضرورت کا ذخیرہ رکھتا ہے۔ 25 فیصد سرکار خرید لیتی ہے اور 25 فیصد مارکیٹ میں چلی جاتی ہے۔ اگر قیمتیں اوپر جانا بھی تھیں تو نومبر دسمبر میں جاتیں۔'
انھوں نے کہا کہ 'مارکیٹ سے جو گندم غائب ہوئی وہ سرکار کی خریدی ہوئی گندم نہیں بلکہ وہ گندم ہے جو گندم کا کاروبار کرنے والوں نے خریدی۔ گندم غائب تو نہیں ہوئی اس کو سٹاک کر لیا گیا ہے، اور ایسا انہی لوگوں نے کیا جنھوں نے دسمبر میں یہ کھیل کھیلا تھا۔ اب ان کو کس نے پکڑنا ہے، یہ کام تو صوبائی حکومتوں نے کرنا ہے۔ مجسٹریسی تو ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ وزارت غذائی تحفظ کی یہ ذمہ داری تو نہیں بنتی، یہ تو صوبائی حکومتیں ہیں جن کے دائرے کے اندر یہ سب آتا ہے۔'

وفاقی وزیر نے خدشہ ظاہر کیا کہ ٹڈی دل کا حملہ دوبارہ بھی ہو سکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے کہا کہ صوبائی حکومتوں نے ٹڈی دل سے ہونے والے نقصانات کے بارے رپورٹ نہیں جمع کرائی، صرف ایک صوبے نے ہمارے کہنے پر رسمی کارروائی کرتے ہوئے رپورٹ بھیجی اور بتایا ہے کہ بہت معمولی نقصان ہوا ہے کیونکہ ہم نے کہا تھا کہ صوبے کے کاشت کاروں کو نقصان کا معاوضہ دیں گے۔ اب ہم عالمی بینک سے قرضے لے رہے ہیں تاکہ کچھ تو دل جوئی کرسکیں۔
وفاقی وزیر نے خدشہ ظاہر کیا کہ 'ٹڈی دل کا حملہ دوبارہ بھی ہو سکتا ہے۔ امکان ہے کہ (ٹڈی دل) راجھستان سے آ سکتا ہے۔ دنوں میں بھی آ سکتا ہے ہفتوں میں آ سکتا ہے۔ اسی طرح چل رہا ہے اس میں ہوا کے رخ کا ایک تعلق ہوتا ہے۔ اس میں حبس اور بارشوں کا تعلق بھی ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب ٹڈی دل پرواز کرتا ہے تو پھر ادھر بھی آ سکتا ہے، راجستان بھی جا سکتا ہے۔ تھرپارکر بھی آ سکتا ہے، ناران بھی جا سکتا ہے اور ایران بھی جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی پیش گوئی نہیں کر سکتے، لیکن ہمیں تیاری تو مکمل کرنی چاہیے۔'

فخر امام نے کہا کہ کسانوں کی فصلوں کی انشورنس کرنی چاہیے (فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے کہا کہ 'وفاقی حکومت نے 27 ارب روپے کا پروگرام منظور کیا ہے جس میں ٹڈی دل سے بچاؤ کے لیے جدید سپرئیرز جو پہلے ہالینڈ سے خریدنا پڑتے تھے اب اسے کراچی کی کمپنی بنائے گی اور درآمدی بل کم ہوگا۔ 25 سپریئرز کا فوری آرڈر دے دیا ہے اور دو سو مزید خریدیں گے جبک 80 ہمارے پاس پہلے سے موجود ہیں۔ یہ لاکھوں ایکڑ اراضی پر سپرے کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ اس کے علاوہ کیمیکلز کی خریداری اور افرادی قوت بڑھانے پر بھی زور دے رہے ہیں۔ پہلے ہمارے پاس 31 افراد تھے اب مزید دو سو بھرتی کر رہے ہیں۔'
انھوں نے زور دیا کہ 'کسان کی فصلوں کی انشورنس کرنی چاہیے تاکہ کسی بھی قسم کی قدرتی آفت سے ہونے والے نقصان سے کسان مالی نقصان سے محفوظ رہ سکے۔'

شیئر: