Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کولمبس کو غلطی بھاری پڑی

جدید دنیا میں امریکہ کی دریافتِ نو کا سہرا کولمبس کے سر ہے (فوٹو: اے ایف پی)
ساون بھادوں ساٹھ ہی دن ہیں، پھر وہ رُت کی بات کہاں 
اپنے اشک مسلسل برسیں، اپنی سی برسات کہاں 
راجا بکرماجیت سے منسوب ’بکرمی جنتری‘ میں ساون اور بھادوں بالترتیب چوتھا اور پانچواں مہینہ ہے۔ ان مہینوں میں مینہ چھاجوں برستا ہے، اس دوماہی برکھا رُت کو انگریزی میں مون سون (monsoon) کہتے ہیں۔ ہم پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ مون سون کی اصل عربی کا ’موسم‘ ہے۔ مون سون میں بادل کُھل کر برسے تو گاہے میونسپلٹی کا بھرم بھی کُھل جاتا ہے۔ یوں نشیبی علاقے ’اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے‘ کے منظر میں بدل جاتے ہیں۔  
بارش زوردار ہوتو’مُوسلا دھار‘ کہلاتی ہے۔ کچھ لوگ اسے ’تیز مُوسلا دھار بارش‘ بھی کہتے ہیں، جو درست نہیں کہ ’موسلا دھار‘ میں ’تیز‘ کا مفہوم شامل ہے۔  
استاد کہتے ہیں ’مُوسلا دھار‘ کا مُوسل، ’اُوکھلی‘ کا جوڑی دار ہے۔ مُوسل، جسے ’موسر‘ بھی کہتے ہیں، لکڑی کا ایک گول ڈنڈا ہوتا ہے جو اناج کوٹنے اور چَھڑنے میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کام میں اوکھلی میں موجود اناج پر ’مُوسل‘ سے پے در پے ضربیں لگائی جاتی ہیں۔ اسی سے مشہور محاورہ ہے ’جب اوکھلی میں سر دیا تو موسلوں کا کیا ڈر‘۔ یہ محاورہ اُس وقت برتا جاتا ہے جب کوئی راہ کی مشکلات  سے بے پروا ہوکرعمل پر ڈٹ جائے۔ اس محاورے کو ’میر یارعلی جان‘ نے شعر میں برتا ہے: 
جب اوکھلی میں سر دیا موسل کا کیا ہے ڈر 
سب کو خدا دے جیسا دیا ہے جگر مجھے 
چوں کہ مُوسل اوکھلی میں موجود اناج پر پے بہ پے پڑتا ہے چنانچہ اس رعایت سے  تیز برسات کو ’موسلا دھار‘ کہتے ہیں۔’مُوسل‘ چھوٹی ہو تو’موسلی‘ کہلاتی ہے، اس کی ایک صورت ’موگری‘ بھی ہے۔ گھروں میں یہ موسلی اوراوکھلی ’مسالا‘ کوٹنے اور پیسنے کے کام آتی ہے۔ یہ لکڑی کے علاوہ پتھر، لوہے یا پیتل کی بھی ہوتی ہے۔ اسے ’ہَاوَن دستہ‘ بھی کہتے ہیں۔  
 

مون سون میں بادل کُھل کر برسیں تو میونسپلٹی کا بھرم بھی کُھل جاتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

استاد کی موسلا دھار گفتگو تھمی تو ہم نے پوچھا : جب ’مون سون‘ کی اصل ’موسم‘ ہے تو اسے ’مون سون کا موسم‘ کیوں کہتے ہیں؟ 
انہوں نے عینک کے اوپر سے ہمیں گھورا اور گویا ہوئے: موسم (سیزن) تو کسی بھی چیز کا ہوسکتا ہے، جب کہ انگریزی اوراس کی رعایت سے اردو میں آنے والا لفظ ’مون سون‘ خاص برکھا رُت سے متعلق ہے، یوں اسے مون سون کا موسم کہنے میں کوئی قباحت نہیں۔ 
اتنا کہہ کر استاد نے کمربند سے بندھی ریشمی پوٹلی کھولی اوراُس میں چند دانے الائچی کے نکال کر پھانکے اوربات آگے بڑھائی: اگر تمہارے اعتراض کو درست تسلیم کر لیا جائے تو دنیا کے سب سے بڑے صحرا کا انگریزی نام ’Sahara Desert‘ بھی غلط قرار پائے گا۔ 
وہ کیوں؟ ۔۔۔ ہم نے حیرت سے پوچھا۔ 
وہ یوں کہ اس نام میں ’Sahara‘ اصل میں عربی کا ’صحراء‘ ہے۔ جب کہ Desert تو کہتے ہی صحرا یا ریگستان کو ہیں۔ یوں یہاں بھی ’مون سون کا موسم‘ والا معاملہ ہے۔ بات یہ ہے کہ اہل یورپ نے مقامی باشندوں کو ’صحرا‘ کہتے سنا تو وہ اسے اس کا نام سمجھے، یوں انہوں نے اسے ’Sahara Desert‘ پکارا۔ 

دنیا کے سب سے بڑے صحرا کا انگریزی نام ’Sahara Desert‘ ہے (فوٹو: اے ایف پی)

یہی صورت ’بحرِاوقیانوس‘ کی بھی ہے۔ جالینوس اور دقیانوس کی طرح ’اوقیانوس‘ کا لفظ بھی یونانی زبان سے عربی میں آیا ہے۔ بحر اور اوقیانوس دونوں کے معنی ’وسیع ذخیرہ آب‘ کے ہیں۔ عام طورپراہل فارس ’بحر‘ کی جگہ ’اوقیانوس‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں مثلاً  جسے ہم بحرالکاہل اور بحر ہند کہتے ہیں وہ فارسی میں اوقیانوس آرام اور اوقیانوس ہند ہے۔ 
مختصریہ کہ ’بحر‘ اور’اوقیانوس‘ کے ہم معنی ہونے کی وجہ سے بظاہر’بحراوقیانوس‘ کی ترکیب نادرست معلوم ہوتی ہے، مگر رواج پاجانے کی وجہ سے اردو کی حد تک یہ غلط نہیں رہی۔ 
’بحر اوقیانوس‘ کو عربی میں ’المحيط الاطلسی‘ اور فارسی میں ’اوقیانوس اطلس‘ کہتے ہیں۔ ان دونوں میں ’الاطلسی‘ اور ’اطلس‘ انگریزی کا Atlantic ہے۔ علاوہ ازیں اس سمندر کو ’بحر محیط‘ اور ’بحر ظُلُمات‘ بھی کہا جاتا ہے۔ 
علامہ اقبال والا ’بحرظُلُمات‘ ؟ ۔۔۔ ہم نے کسی قدر جوش سے پوچھا۔ 
استاد مسکرا کر بولے: بالکل علامہ اقبال والا ’بحر ظلمات‘۔ براعظم افریقہ کے مغرب میں واقع اس سمندر کے پار کیا ہے کیا نہیں، انسان ایک مدت تک اس بارے میں لاعلم تھا، اس لیے اس سمندر کو بحر ظُلُمات کہتے تھے۔ مشہور مسلم فاتح عقبہ بن نافع نے جب شمالی افریقہ فتح کیا تو آگے بڑھ کر اپنا گھوڑا سمندر میں اتار دیا اور پھر اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوکر فرمایا:   
’اگر یہ سمندر میری راہ میں حائل نہ ہوتا تو زمین کے آخری کونے تک تیرا نام بلند کرتا چلا جاتا‘۔ علامہ اقبال نے اس واقعہ کو بطور تلمیح برتا ہے: 
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے 
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے 

بحر اور اوقیانوس دونوں کے معنی ’وسیع ذخیرہ آب‘ کے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

پھر بولے: کبھی فرصت ہو تو دنیا کا نقشہ دیکھنا، افریقہ کے مغرب میں بحر ظلمات کے اُس پار جو خطۂ زمین ہے جدید دنیا اسے ’امریکہ‘ کے نام سے جانتی ہے۔ یوں تو کولمبس سے کئی صدیوں پہلے عرب جہاز راں اس سرزمین کی خبر لا چکے تھے، جن کے آثار امریکا کے مختلف ساحلوں پر آج بھی موجود ہیں۔ مگر جدید دنیا میں امریکہ کی دریافتِ نو کا سہرا کولمبس کے سر ہے۔ تم نے ’کولمبیا‘ کا نام سنا ہوگا یہ اسی کولمبس کے نام سے منسوب ہے۔ 
اگر ’کولمبیا‘ کو ’کولمبس‘ سے نسبت ہے تو پھر’امریکہ‘ کا تعلق کس سے ہے؟  
’امریکہ‘ اطالوی مہم جُو’امریگو وسپوچی‘ (Amerigo Vespucci) سے منسوب ہے۔ یہ مہم جو کولمبس کے بعد امریکہ پہنچا اوراُس سے زیادہ سفر کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ کولمبس نے جسے ہندوستان (انڈیز) سمجھا تھا وہ درحقیقت ایک نئی دنیا تھی۔ چنانچہ سولہویں صدی کے آغاز میں جرمن نقشہ سازمارٹن والڈ سمیلر(Martin Waldseemüller) نے دنیا کا نقشہ  بنایا تو اُس نے اس خطے کو’امریگو‘ کی نسبت سے’امریکہ‘ کا نام دیا جو ساری دنیا میں مقبول ہوگیا۔ 
پھر کچھ سوچ کر بولے اب مقبول کی رعایت سے اقبال کا شعر سنو اور ہمیں اجازت دو: 
پُوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی 
تُو صاحبِ منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی 

شیئر: