Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے نئے سیاسی نقشے میں نیا کیا ہے؟

پاکستان نے اسلام آباد کی کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر سری نگر ہائی وے رکھ دیا ہے۔ فوٹو: اے پی پی
پاکستان کی جانب سے ملک کا نیا سیاسی نقشہ جاری ہونے کے بعد یہ سوال ذہن میں آ رہا ہے کہ جب پاکستان پہلے دن سے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور اگر کبھی کبھار کشمیر کے بغیر کوئی نقشہ کہیں چھپ یا شائع ہو جائے تو اس پر تنقید بھی ہوتی ہے تو ایسے میں اس نقشے میں نیا کیا ہے؟
منگل کو نئے سیاسی نقشے کے اغراض و مقاصد اور حدود اربع بتاتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'ہندوستان نے 5 اگست کے بعد ایک نقشہ جاری کیا جس میں انہوں نے دنیا اور اپنے ساتھ مذاق کیا تھا۔'
انھوں نے کہا کہ 'مسئلہ کشمیر کا حل سلامتی کونسل کی قراردادوں سے نکلے گا۔ ہمارے نقشے نے واضح کیا کہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی اس مسئلے کا حل استصواب رائے سے کیا جائے گا۔ آج نقشے میں بین الاقوامی سرحد کو ظاہر کیا گیا ہے۔'

 

ان کا کا کہنا تھا 'نقشے میں ریڈ ڈاٹڈ لائن جو کہ راستے میں ختم ہوتی تھی اس کو چین سے ملا دیا گیا ہے۔'
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'اس نقشے میں واضح کر دیا گیا ہے کہ سیاچن کل بھی ہمارا تھا اور آج بھی ہمارا ہے۔ سرکریک میں ہندوستان کے دعوے کی اس نقشہ میں مکمل نفی کر دی گئی ہے۔'
انھوں نے بتایا کہ ’لیہہ، لداخ اور کچھ دیگر ریاستوں کو اس لیے شامل نہیں کیا گیا کہ جب کشمیر کا فیصلہ ہوگا اقوام متحدہ کی قردادوں کے مطابق تو اس وقت کی خود مختار ریاستیں اپنے فیصلے کریں گی۔‘
تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ 'ایک لحاظ سے یہ نیا نقشہ نہیں ہے پاکستان بننے کے بعد اور 1950 کے اوائل میں بھی کتابوں میں پاکستان کا نقشہ مکمل کشمیر کے ساتھ چھپتا تھا۔ ہم نے وہ کتابیں پڑھی ہوئی ہیں اور میں اس کی گواہی دے رہا ہوں۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دو طرفہ معاہدے کے بعد نقشہ تبدیل ہوا تھا۔‘

انڈیا کی جانب سے گزشتہ برس پانچ اگست کے اقدام کے جواب میں پاکستان نے نیا سیاسی نقشہ جاری کیا ہے۔ فوٹو: اے پی پی

انھوں نے کہا کہ ’گلگت بلتستان تو کسی صورت کشمیر کا حصہ نہیں ہو سکتا کیونکہ انھوں نے تو بہت پہلے مہاراجہ سے آزادی سے حاصل کر لی تھی۔ وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو اپنے ملک کا حصہ دکھاتا ہے تو ہم کیوں نہ دکھائیں۔ جو انڈیا نے کیا تھا پاکستان نے اس کا جواب دے دیا ہے۔‘
سابق سفارت کار آصف درانی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ 'پہلے پاکستان یہ کہہ رہا تھا کہ استصواب رائے ہونا چاہیے۔ جب انڈیا نے صورت حال کو تبدیل کر دیا ہے تو اب اس نقشے کے ذریعے ہم بھی پورے کشمیر پر دعویدار ہیں۔
’اب ہم بھی تقسیم ہندوستان کے پلان کو لے کر آگے بڑھائیں گے کہ پورا کشمیر ہمارا ہے۔‘
رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ 'پاکستان کی جانب سے نقشے کا اجراء اس بات کا پیغام ہے کہ پاکستان نے پانچ اگست کے انڈین اقدام کو خاموشی سے برداشت نہیں کیا بلکہ وہاں سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر جب تک حل نہیں ہو جاتا تب تک مسئلہ ہی رہے۔ ’دنیا کے سامنے بار بار اس مسئلے کو رکھنا تاکہ وہ اس کو دیکھیں کہ کشمیر میں ہو کیا رہا ہے اور اس کو حل ہونا چاہیے۔ اس نقشے کو جاری کرنے کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔‘
سفارت کار آصف درانی نے کہا کہ 'انڈیا نے صرف اقوام متحدہ ہی کی نہیں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والے شملہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی کی ہے کہ دونوں ممالک کشمیر کی حدود اور قانونی حیثیت کو تبدیل نہیں کریں گے۔ پانچ اگست کے انڈین اقدامات کے بعد پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا کہ اسے اسی کی زبان میں جواب دیا جائے تو آج جواب دے دیا گیا ہے۔‘

شیئر: