Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بھکاری اور انسانی نفسیات

پاکستان میں بھکاریوں کے ترکش میں تمام تیر ہوتے ہیں (فوٹو: دی رائٹر)
آپ کسی شہر کے معروف چوک پر دو منٹ کے لیے رک جائیں تو آناً فاناً بھکاریوں کا ایک ہجوم آپ کے گرد جمع ہو جائے گا۔ ان بھکاریوں میں ہر عمر، نسل اور جنس کے لوگ ہوں گے۔ ان کے حلیے ایسے ہوں گے کہ اگر آپ کو کسی ایک پر رحم نہ آئے تو فوراً ہی کوئی دوسرا بھکاری آپ کے گرد ہو جائے گا۔
کسی نے ہاتھ میں ایکسرے اٹھایا ہو گا، کسی نے کسی ادھ موئے بوڑھے شخص کو وہیل چیئر میں حالت نیم مرگ میں دھرا ہو گا، کسی نے ماتھے پر خون آلود پٹی باندھی ہو گی، کسی کے ہاتھ پاؤں مڑے تڑے ہوں گے، کوئی زخموں کی شدت سے چلا رہا ہوگا.
کسی عورت نے ڈاکٹر کا نسخہ ہاتھ میں تھاما ہو گا۔ کوئی زمین پر گھسٹ رہا ہو گا، کوئی آپ کی گاڑی یا موٹر سائیکل سے لپٹ جائے گا اور کسی کو غشی کے دورے پڑ رہے ہوں گے.
سڑکوں پر سینکڑوں کی تعداد میں موجود یہ بھکاری ایسے ڈھونگ رچاتے ہیں کہ بسا اوقات یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سب ایک بہروپ ہے، ڈھونگ ہے، آپ کا ہاتھ جیب میں جاتا ہے اور شاپنگ میں سے بچ جانے والا آخری نوٹ ان کی نظر ہو جاتا ہے۔
ان بھکاریوں کو پتا ہوتا ہے کہ گاڑی میں باریش اور متمول شخص کو حج اور عمرے کی سعادت کی نوید دینی ہے۔ ’ڈیٹ پر آئے نوجوانوں کو ’اللہ جوڑی سلامت رکھے‘ کہنا ہے۔
نوبیاہتا جوڑے کو نرینہ اولاد کی خوشخبری سنانی ہے۔ موٹر سائیکل سوار کو لمبی گاڑی کی دعا دینی ہے۔ ٹوٹی پھوٹی گاڑی والے کو لینڈ کروزر کا سندیسہ دینا ہے۔ کلرک بابو کو افسر بننے کی دعا سے نہال کرنا ہے۔ افسر کو بادشاہ بننے کا خواب دکھانا ہے۔ بزرگوں کو جنت کی بشارت بھی یہ دیتے ہیں۔ سہاگ کی سلامتی کی دعا بھی ان کے کیسے میں دھری ہوتی ہے۔
ان کے ترکش میں تمام تیر ہوتے ہیں۔ ان کا ظاہری حلیہ جتنا دلدوز ہوتا ہے ان کی دعائیں بھی اتنی ہی اثر انگیز ہوتیں ہیں۔ ان کو پتا ہوتا ہے کہ کس پر کون سی دعا اثر کرے گے، کس کا دل کس جملے پر پسیجے گا اور کس بات سے کس کی آنکھ سے آنسو ٹپکے گا۔
کس بات سے کس کا دل موم ہو گا، کون ایک جملے سے تڑپ کر رہ جائے گا اور کس کی نار جہنم کے خوف سے گھگھی بندھ جائے گی۔ کون پانچ ہزار کا نوٹ نکالے گا اور کون کھوٹا سکہ اچھالے گا۔ یہ سب جانتے ہیں۔
انہیں علم ہوتا ہے کہ کس کے سامنے دست سوال دراز کرنا ہے؟ کس کے آگے کشکول رکھنا ہے؟ کس کے سامنے دامن پھیلانا ہے؟ کس کے سامنے ماتم کرنا ہے؟ کس کے سامنے فاتر العقل بن جانا ہے؟ اور کس کے سامنے ٹسوے بہانے ہیں؟

بھکاریوں کی تمام تر مہارت بھیک مانگنے کی ہوتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

سنا یہی ہے کہ ان کو بھیک مانگنے کی اتنی عادت ہوتی ہے کہ یہ کوئی کام کاج کر ہی نہیں سکتے۔ ان کی تمام تر مہارت بھیک مانگنے کی ہوتی ہے۔ یہ اسی فن کے مشتاق ہوتے ہیں۔
سب سے زیادہ ظلم تب ہوتا ہے جب یہ بھیک مانگنے کے لیے بچوں کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ نوزائیدہ بچوں کے نیم مردہ جسموں کو آگے بڑھا کر ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ یہ زیادہ بھیک کی خاطر یہ بچپن میں ہی اپنے بچوں کے ہاتھ پیر توڑ دیتے ہیں، کسی کی آنکھ نکال دیتے ہیں، کسی کی ٹانگ توڑ دیتے ہیں۔ کسی کے سر پر لوہے کا خول چڑھا کر اسے ذہنی معذور کر دیتے ہیں۔
حتیٰ کہ بعض اوقات یہ اپنے بچوں کے جسم پر زخم لگا کر ان سے خون نکال کر دست سوال دراز کر دیتے ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ ننھے پھول ایسے بچوں کو آگ سی تپتی سڑک پر کیسے چلانا ہے یا پھر یخ بستہ موسم میں ستاروں جیسے معصوم بچوں کو سردی میں کس طرح ’برفانا‘ ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ایسے شقی القلب کارناموں کا خراج زیادہ ملتا ہے، کشکول زیادہ بھرتا ہے۔ نوٹ زیادہ ملتے ہیں۔ ’روکڑا‘ زیادہ بنتا ہے۔
آپ مجھے ظالم کہیں یا کٹھور دل، کنجوس کہیں یا کھڑوس، شقی القلب کا خطاب دیں یا مجھے سنگ دل کہیں مگر میں ایسے بھکاریوں کو کبھی بھیک نہیں دیتا۔ یہ نہیں کہ ان کے حلیوں پر میرا دل خون کے آنسو نہیں روتا، یہ نہیں کہ بے بسی کے شہکاروں پر میرا دل ماتم نہیں کرتا۔ میں بھی ان سب کیفیات سے گزرتا ہوں مگر کبھی ایک پیسہ بھی انہیں نہیں دیتا۔ اس لیے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بھیک مانگنا ان کا کاروبار ہے۔
اگر میں ان کے رقت آمیز حلیوں پر ترس کھا کر ان کو کچھ پیسے دے دوں گا تو اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ ان کو زیادہ منافع ہو گا۔ ان کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ یہ کبھی کوئی کام کاج نہیں کریں گے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس طرح کے بچے آپ کو سڑکوں پر نظر نہ آئیں تو انہیں بھیک نہ دیں (فوٹو: عرب نیوز)

مجھے خوف آتا ہے کہ جب ان کے ساتھ موجود معصوم بچوں پر ترس کھا کر لوگ ان کو پیسے دیتے ہیں تو یہ گھر جا کر اپنے اور بچوں کے ہاتھ پاؤں توڑ دیتے ہوں گے اس لیے کہ یہ زخم زخم بچے ان کا منافع بن جاتے ہیں۔ یہ پھول جیسے نیم برہنہ بچے ان کے کاروبار میں بڑھاوے کا سبب بن جاتے ہیں۔
تو اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس طرح کے بچے آپ کو سڑکوں پر نظر نہ آئیں تو انہیں بھیک نہ دیں۔ ان کے کاروبار میں ان کا منافع ختم کر دیں۔ خیرات کرنی ہے تو ایسے لوگوں کو کریں جن سے آپ واقف ہوں، جو سفید پوش ہوں، جو بھیک نہ مانگ سکتے ہوں، جو دامن نہ پھیلا سکتے ہوں، جو سڑکوں پر آپ کو نوچ نہ سکتے ہوں۔ جن کی ضرورتیں ان کی زبان تک نہ آ سکتی ہوں۔
 لکھتے لکھتے خیال آیا کہ کچھ ملکوں میں بھی بھکاریوں والے خصائل ہوتے ہیں۔ یہ بھی کوئی کام کاج نہیں کرتے بس ہر وقت فنڈ، گرانٹ، قرضہ، امداد کی آس میں رہتے ہیں۔
یہ تاک میں رہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کا دل کس بات پر پسیجے گا، ورلڈ بینک کس بات پر رحم کھائے گا اور آئی ایم ایف کسی بات پر قرضے میں چھوٹ دے گا۔ یورپی یونین کس بات پر اشک بار ہو گی۔ ان کی جھولی ہمیشہ پھیلی ہوتی ہے۔
ان کا دست سوال ہمیشہ دراز ہوتا ہے۔ ان کو پتا ہوتا ہے کب، کس وقت، ترکش کا، کون سا، تیر چلنا ہے۔ کب مہاجرین کو پناہ دینے کے لیے ڈالر مانگنے ہیں؟ کب انہیں نکالنے کے پیسے کھرے کرنے ہیں؟ کب مذہبی جماعتوں کے جلوس نکالنے ہیں اور کب 'جرمن شیپرڈ' کو بغل میں داب کر ہاتھ میں جام اٹھا کر جھولی پھیلانی ہے۔

 کچھ ملکوں میں بھی بھکاریوں والے خصائل ہوتے ہیں اور یہ بھی کوئی کام کاج نہیں کرتے (فوٹو: فیس بک)

کب مزاحمت سے منافع حاصل کرنا ہے اور کب مفاہمت کے پیسے کھرے کرنے ہیں۔  کب ’کورونا‘ کے لیے دست سوال دراز کرنا ہے، کب ’ٹڈی دل‘ کے لیے خیرات مانگنی ہے اور کب سیلاب کے مناظر سے دنیا کا دل موم کرنا ہے۔
کب اپنے حق میں لڑنے کے لیے فنڈ اکھٹا کرنا ہے اور کب نقشے پر فقط ایک لکیر لگانے پر اکتفا کرنا ہے۔  
یہاں تک تو ٹھیک ہے مگر مقام الم وہ ہوتا ہے جب ایسے ملک اپنے بچوں کے ہاتھ پاؤں توڑ کے جھولی پھیلا دیتے ہیں، حتیٰ کہ یہ اپنے بچوں کے جسموں پر زخم لگا کر، ان کا خون بہا کر، خراج وصول کرتے ہیں۔ انہیں سب پتا ہوتا ہے کہ اب دنیا کے نرم دل اور گرم جیب پر کہاں اور کیسے ہاتھ دھرنا ہے۔ میں نے آغاز میں ہی کہا تھا کہ بھکاریوں سے زیادہ انسانی نفسیات کو کوئی نہیں جانتا۔

شیئر: