Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

wall کا نارووال سے رشتہ جُڑ گیا

بار سے ’وال‘ شہر کے علاوہ دیوار کے معنی میں بھی آتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
چوں کہ انسان ’سماجی حیوان‘ ہے، اس لیے گھربار اور بستیاں بسانا اس کی فطرت میں شامل ہے۔ ان بستیوں، شہروں، ملکوں اور خطوں کے ناموں کا مطالعہ ایک دلچسپ موضوع ہے۔ برصغیر میں بیشتر مقامات کے ناموں کا لاحقہ (آخری جُز) آبادی کا ترجمان ہوتا ہے۔ مثلاً لفظ ’تھمنا‘(یعنی ’ٹھہرنا، رُکنا، قرار پانا) کا بہروپ لفظ تھانا (تھانہ) ہے۔ اس کی ایک صورت تھان بھی ہے جس کے معنی ٹھکانہ، جگہ اور جائے قیام ہے۔ وہ جگہ جہاں مویشی رکھے جائیں ’تھان‘ اور جہاں ملزم رکھیں جائیں ’تھانہ‘ کہلاتی ہے۔ پنجابی میں یہی ’تھان‘ بصورت ’تھاں‘ یعنی جگہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ میڈم نور جہاں کا ایک مشہور گیت ہے:
میرے چرچے گلی گلی تھاں تھاں 
میری دھن دا شور شرابا میں اَں نورجہاں
خیر اس ’تھان‘ کو آپ ’استھان‘،ستان، اَن اور اَنہ کے لاحقے کے ساتھ راجستھان (راجپوتوں کی سرزمین)، افغانستان (افغانوں کی سرزمین )، ایران (آریاؤں کی سرزمین) اور لودھیانہ (لودھیوں کا گھر) میں دیکھ سکتے ہیں۔
پاکستان کا مشہور شہر اور انڈیا کی معروف ریاست کا نام ’گجرات‘، دولفظوں ’گُجر‘ اور ’اَت‘ پر مشتمل ہے۔ اس میں لفظ  ’اَت یا اَتہ‘ جگہ اور مقام کا قائم مقام ہے۔ یوں گجرات کے معنی ہوئے گُجروں کا علاقہ۔ اگر ہماری بات کا یقین نہ آئے تو بھارتی شہر’میوات‘ کے نام پرغورکرلیں، جس کے معنی ’میؤ‘ قوم کا علاقہ ہے۔ پھر کراچی اور حیدرآباد دونوں شہروں میں ایک مقام کا نام ’گاڑی کھاتہ‘ ہے۔
اس جگہ کا اصل نام ’گاڑی آتہ‘ تھا۔ ان دونوں ہم نام مقامات کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ موٹرگاڑیوں کی ریل پیل سے پہلے سامان ڈھونے کے لیے ہاتھ گاڑیاں استعمال ہوتی تھیں (جیسا کہ جونا مارکیٹ اور جوڑیا بازار وغیرہ میں آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں)، مزدور سرِشام  یہ گاڑیاں جس جگہ کھڑی کرتے وہ مقام ان ہاتھ گاڑیوں کی نسبت سے ’گاڑی اَتہ‘ کہلایا، جو کثرت استعمال سے ’گاڑی کھاتہ‘ ہوگیا۔ مزید آسانی کے لیے یوں سمجھ لیں کہ ’اَتہ‘ ایک درجے میں عربی کے ’احاطہ‘ کا ہم معنی لفظ ہے۔
کہتے ہیں حضرت ابراہیم کا تعلق میسو پوٹیمیا (قدیم عراق) کے شہر ’اُر‘ سے تھا جسے ’اُور‘ بھی لکھتے ہیں۔ لفظ ’اُور‘ ناپید ہوجانے والی ’آرامی‘ زبان سے متعلق ہے۔ ’اُور‘ کے لفظی معنی ’شہر‘ کے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ’اُور‘ کی بازگشت برصغیر کے بہت سے شہروں میں سنائی دیتی ہے۔ جیسا کہ لاہور، ناگور اور بینگلور وغیرہ۔ ان ناموں کا لاحقہ ’اُور‘ اصلاً شہر یا آبادی کا نمائندہ ہے۔ ذرا سی محنت کرنے پر آپ کو یہ لاحقہ پاک و ہند بالخصوص جنوبی ہند کے درجنوں شہروں اور قصبات کے ناموں میں مل جائے گا۔

وہ جگہ جہاں مویشی رکھے جائیں ’تھان‘ اور جہاں ملزم رکھیں جائیں ’تھانہ‘ کہلاتی ہے (فائل فوٹو: اردو نیوز)

’بار‘ عربی، فارسی اور اردو کا وسیع الاستعمال اور کثیر المعنی لفظ ہے۔ بار کے بہت سے معنی میں سے ایک ’ساحلی شہر‘ بھی ہیں۔ اسے آپ مشہور افریقی جزیرے ’زنجبار‘ اور جنوبی ہند میں ’ملیبار‘ کے ناموں میں دیکھ سکتے ہیں۔ بعد میں ’بار‘ کے معنی میں وسعت پیدا ہوئی اور یہ غیر ساحلی شہروں اور آبادیوں کے لیے بھی استعمال ہونے لگا۔
ہم پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ صوتی تبادل کے تحت اکثر مواقع پر ٖ’ب‘ حرف ’پ۔ ف۔ و‘ سے جب کہ ’ر‘ حرف ’ڑ ۔ ل‘ سے بدل جاتا ہے۔ اس تبدیلی کو آپ لفظ ’بار‘ میں بار بار دیکھیں گے۔
اس ’بار‘ کی ایک صورت ’واڑ‘ ہے۔ اس کے معنی میں گلی، کوچہ، محلہ اور شہر شامل ہے۔ اسے آپ ’واڑ، واڑہ اور واڑی‘ کی صورت میں بالترتیب ’مارواڑ، کہمار واڑہ اور پٹھان واڑی‘ کے ناموں میں دیکھ سکتے ہیں۔
اس بار کی ایک صورت ’باڑ‘ بھی ہے جس کے معنی کسی بھی چیز سے کی جانے والی حد بندی ہے، پھر یہ اس جگہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جس کی حد بندی کی گئی ہو۔ اسے ’باڑہ‘ اور ’باڑی‘ کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ بنگالی زبان میں ’باڑی‘ گھر کو کہتے ہیں، جب کہ کھیتی باڑی اردو میں عام استعمال ہوتا ہے۔ ’بار‘ ہی سے لفظ ’پاڑ‘ اور ’پاڑا‘ ہے۔ یہ بھی گلی، محلے اور علاقے کے لیے بولا جاتا ہے۔ کراچی کا ’پٹیل پاڑا‘ اسی سے متعلق ہے۔

مزدور سرِشام ہاتھ گاڑیاں جس جگہ کھڑی کرتے وہ مقام ان ہاتھ گاڑیوں کی نسبت سے ’گاڑی اَتہ‘ کہلایا (فائل فوٹو: روئٹرز)

 ’بار‘ کے ایک صورت ’وار‘ بھی ہے، جس سے ’واری‘ بنا ہے۔ اسے ’پھلواری‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔
’بار‘ بمعنی شہر انگریزی میں Bury کی صورت میں موجود ہے جو آبادی کا نمائندہ ہے اور بہت سے شہروں کے نام کا جُز ثانی ہے، مثلاً Salisbury وغیرہ۔  
جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ ’بار‘ آبادی کو ظاہر کرتا ہے۔ قدیم زمانے میں شہر کے گرد حفاظتی دیوار ہوتی تھی (جو آج کے جدید رہائشی منصوبوں کے گرد بھی ہوتی ہے)، لہٰذا اس رعایت سے آبادی اور دیوار دونوں کو ’بار‘ کہا جانے لگا جو صوتی تبادل کے بعد بعض مقامات پر ’وال‘ ہوگیا۔ 
’وال‘ بمعنی آبادی آپ شہر ’نارووال‘ اور ’ظفر وال‘ وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس کی دیگر صورتیں ’والہ اور والی‘ ہیں جو گجرانوالہ، جڑانوالہ، ٹامیوالی اور میانوالی میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان ناموں کا آخری جُزآبادی کی علامت ہے۔

بار کے بہت سے معنی میں سے ایک ’ساحلی شہر‘ بھی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بار سے ’وال‘ شہر کے علاوہ دیوار کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اسے واضح طور انگریزی کے Wall  اور فرانسیسی زبان کے mur  اور mural میں دیکھ سکتے ہیں۔ پھر اردو کا دیوار فارسی، پشتو اور گجراتی زبانوں میں ’دیوال‘ ہے جب کہ فارسی ہی میں اس کی ایک صورت ’دیفال‘ بھی ہے۔
اب اس ’بار‘ کی بحث کو مختصراً سمجھ لیں کہ بار کے اول معنی شہر تھے پھر غیر ساحلی شہر اور آبادیاں بھی اس مفہوم میں شامل ہوگئے۔ پھر اس نے واڑ،واڑہ، واڑی، باڑ، باڑہ،باڑی، پاڑ، پاڑہ، وال، والہ اور والی کی صورت اختیار کی جب کہ انگریزی میں Bury کہلایا۔  
چوں کہ شہر حصار بند ہوتے تھے اس لیے بار کے ایک معنی میں ’دیوار‘ اور ’حفاظت‘ کا مفہوم بھی شامل ہوگیا۔ دیوار کے ذکر سے ہمیں ناصر کاظمی یاد آگئے جن کا ایک خوبصورت شعر ہے:
دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہوجائیں گے ایسا لگتا ہے

شیئر:

متعلقہ خبریں