Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا صنعا کا عالمی ثقافتی ورثہ بارشوں کی نذر ہو رہا ہے؟

قدیم گھر عرصہ دراز سے خانہ جنگی اور غفلت کی وجہ سے خطرے سے دوچار تھے (فوٹو: روئٹرز)
جنگ، خوراک کی کمی، سیلابوں اور بیماریوں میں گھرے ملک یمن کے شہر صنعا میں یونیسکو کی عالمی ورثے کی فہرست میں شامل قدیم گھر بارشوں کی وجہ سے زمین بوس ہو رہے ہیں۔ 
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق صنعا شہر کے مضافات میں خاکی اور سفید مٹی کی اینٹوں سے گیارہویں صدی میں بنے گھر عرصہ دراز سے خانہ جنگی اور عدم توجہ کی وجہ سے خطرے سے دوچار تھے۔ 
جمعے کو صنعا میں ہونے والی تیز بارش سے ایک رہائشی محمد علی الطلہی کے گھر کا کچھ حصہ زمین بوس ہو گیا جس سے ان کے خاندان کی چھ خواتین اور چھ بچے بے گھر ہو گئے ہیں۔ 
 
انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے پاس جو کچھ تھا وہ زمین کے نیچے دفن ہو گیا‘ اور پناہ کے لیے مدد کی اپیل کی۔ 
قدیم شہروں کو محفوظ بنانے کی اتھارٹی کے ڈپٹی ہیڈ عقیل صالح نصر نے کہا کہ ماضی کے مقابلے میں آجکل شہری ان قدیم عمارتوں کی حفاظت نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان میں دراڑیں آ جاتی ہیں اور یہ کمزور ہو جا تی ہیں۔ 
ان کا کہنا تھا کہ قدیم شہر میں پانچ ہزار اونچی عمارتوں کی چھتیں لیک کرتی ہیں اور 107 عمارتیں ایسی ہیں جن کی چھتوں کے کچھ حصے ٹوٹ گئے ہیں۔ اتھارٹی یونیسکو اور دیگر فنڈز کی مدد سے انہیں محفوظ بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ 
رواں برس اپریل کے وسط سے شروع ہونے والی بارشیں جو ستمبر تک جاری رہیں گی، جبکہ اقوام متحدہ نے اسے دنیا کے برے ترین بحرانوں سے تشبیہ دی ہے۔ 
یمن میں پانچ برس سے جاری جنگ سے ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، 80 فیصد آبادی امداد پر انحصار کر رہی ہے اور لاکھوں قحط کا شکار ہونے کے قریب ہیں۔ 
کورونا وائرس کے علاوہ، جو خاموشی سے پھیل رہا ہے، بارشیں ہیضہ، ڈینگی بخار اور ملیریا پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں۔ 

صنعا کے ایک رہائشی عدل ثنآنی کے مطابق انہوں نے پانچ گرے ہوئے گھر دیکھے (فوٹو: روئٹرز)

ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے رواں ہفتے اس ورثے کو بچانے کے لیے یونیسکو سے اپیل کی ہے۔ ان کے مطابق گذشتہ چند ہفتوں میں 111 کے قریب گھر یا تو مکمل طور پر زمین بوس ہو گئے ہیں یا انہیں جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ 
صنعا کے ایک رہائشی عدل ثنانی نے روئٹرز کو بتایا کہ رواں ہفتے انہوں نے پانچ گھر دیکھے جو بری طرح تباہ ہو چکے ہیں۔ 
ان کے مطابق ’خاندانوں کے پاس پناہ لینے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ایک مقامی بینک نے چھتوں کے نعم البدل کے طور پر پلاسٹک کی شیٹس تقسیم کرنے کی مہم شروع کی ہے۔‘

شیئر: