Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے‘

راحت اندوری اردو کے استاد اور مصور بھی تھے (فوٹو: سوشل میڈیا)
منفرد لہجے کے شاعر راحت اندوری کے حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کی خبر سامنے آتے ہی پاکستان اور انڈیا کی سوشل ٹائم لائنز ان کی شاعری کے تذکروں سے بھر گئیں۔
سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے کہیں راحت اندوری کی جانب سے ٹوئٹر پر صحت کی دعاؤں کے لیے اپنی زندگی میں دیے گئے آخری پیغام کا ذکر ہوا، تو کہیں ان کے کلام کے اشعار اور مصرعے شیئر کیے جاتے رہے۔
70 برس کی عمر پانے والے راحت اندوری کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ گذشتہ روز مثبت آیا تھا۔ بالی وڈ فلموں کے لیے نغمہ نگاری کرنے والے راحت اندوری اردو زبان کے استاد اور مصور بھی تھے۔
راحت اندوری کے انتقال پر پاکستانی اور انڈین سوشل میڈیا یوزرز کی اکثریت تعزیتی پیغامات اور ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ مختلف مشاعروں و پروگراموں کے موقع پر بنائی جانے والی ان کی ویڈیوز اور تصاویر بھی شیئر کرتی رہی۔
پاکستانی ٹوئٹر صارف فخر کاکا خیل نے ان کے انتقال کی خبر دی تو ان کے مشہور اشعار بھی نقل کیے۔
 

’ساتھ چلنا ہے تو تلوار اٹھا میری طرح - مجھ سے بزدل کی حمایت نہیں ہونے والی‘ سمیت دیگر اشعار پڑھتے راحت اندوری کی ویڈیو کلپ شیئر کرنے والے لوک سبھا کے رکن اسد الدین اویسی نے ان کی مغفرت کے لیے دعا بھی کی۔
انہوں نے لکھا کہ راحت اندوری نے یہ اشعار جنوری میں انڈین شہریت کے متنازع قانون کے حوالے سے احتجاج کے موقع پر ایک پروگرام میں پڑھے تھے۔ 
 
سماج وادی پارٹی مہاراشٹر کے صدر ابو عاصم اعظمی نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا تو لکھا کہ ’آپ کے قلم اور لفظوں کی طاقت تک پہنچنا مشکل رہے گا۔ صرف انڈیا ہی نہیں بلکہ دنیا نے ایک ایسا فرد کھویا ہے کہ جس کی نظمیں آنے والی نسلوں کے لیے بھی قوت محرکہ رہیں گی۔'
 

پیام احمد نامی صارف نے تعریتی ٹویٹ کی تو ان کے مشہور اشعار میں سے ایک نقل کیا۔ ‘دو گز سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہیں- اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کر دیا‘۔
 

’آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نے- چند مٹی کے چراغوں کو ستارہ کر کے‘ کہنے والے راحت اندوری اپنی شاعری میں کہیں بلند عزائم کا اظہار کرتے تو کہیں اپنی مجبوریوں کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔’اجنبی خواہشیں سینے میں دبا بھی نہ سکوں - ایسے ضدی ہیں پرندے کہ اڑا بھی نہ سکوں۔‘
راحت اندوری نے اپنے کلام میں کہیں تعصب بھرے رویوں پر تنقید کی تو ’کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے‘ جیسے جذبات کا اظہار کیا۔ اس کلام پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو ان کے چاہنے والے ’میں جب مر جاؤں تو میری الگ پہچان لکھ دینا‘ کی خواہش سامنے لے آئے جس میں وہ ہندوستان سے وابستگی کا منفرد اظہار کرتے ہیں۔
1950 میں انڈیا کے شہر اندور میں پیدا ہونے والے راحت اندوری کو ان کی شاعری کے سبب اس نام سے جانا جاتا تھا۔ ان کا اصل نام راحت قریشی تھا۔ اسلامیہ کریمیہ کالج، مدھیہ پردیش بھوج یونیورسٹی اور برکت اللہ یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلیم پانے والے راحت اندوری اپنے پیچھے شاعری کی صورت میں خوبصورت یادیں چھوڑ گئے ہیں۔

شیئر: