Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گیس انفراسٹرکچر کیس: عوام کو 417 ارب روپے ادا کرنے کا حکم

کمپنیوں کو گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس کی مد میں 417 ارب روپے ادا کرنے ہوں گے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کے خلاف کمپنیوں کی تمام اپیلیں خارج کرتے ہوئے عوام سے وصول کیے گئے 417 ارب روپے ادا کرنے کا حکم دے دیا۔
رقم کی ادائیگی کا طریقہ کار تفصیلی فیصلے کی روشنی میں طے ہوگا۔
اردو نیوز کے نامہ نگار بشیر چوہدری کے مطابق سپریم کورٹ نے جی آئی ڈی سی سیس کیس کا 20 فروری 2020 کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے کمپنیوں کی اپیلیں مسترد کر دیں۔
جسٹس مشیر عالم نے 3 رکنی بینچ کا 2 ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔ جس میں قرار دیا کہ کمپنیز کو جی آئی ڈی سی ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
دورانِ سماعت پنجاب، سندھ اور بلوچستان نے وفاق کے سیس ٹیکس کی حمایت کی تھی، جب کہ خیبرپختونخوا نے جی آئی ڈی سی سیس کی مخالفت کی تھی۔ گزشتہ حکومت نے گیس پائپ لائن منصوبوں کے لیے سیس کے نام پر ٹیکس لاگو کیا تھا۔ حکومت نے 290 ارب سے زائد رقم اکٹھی کی تھی لیکن یہ رقم منصوبوں پر خرچ نہ ہو سکی۔
کمپنیوں کو گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس کی مد میں 417 ارب روپے ادا کرنے ہوں گے۔ اس طرح اس فیصلے سے وفاق کو 417 ارب روپے کی رقم حاصل ہوگئی۔ حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے جی آئی ڈی سی کے 220 ارب روپے معاف کر دیے تھے۔
78 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس فیصل عرب نے تحریر کیا ہے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ 30 صفحات پر مشتمل ہے۔

گزشتہ حکومت نے گیس پائپ لائن منصوبوں کے لیے سیس کے نام پر ٹیکس لاگو کیا تھا (فوٹو: سی پیک)

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015 کا مقصد گیس کی درآمد کے لیے سہولت دینا تھا۔ جی آئی ڈی سی کے تحت نافذ کی گئی لیوی آئین کے مطابق ہے۔ عدالت نے حکومت کو سیس بقایاجات وصولی تک مزید سیس عائد کرنے سے روک دیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سال 2020-21 کے لیے گیس قیمت کا تعین کرتے وقت اوگرا سیس کو مدنظر نہیں رکھ سکتا۔ تمام کمپنیوں سے 31 اگست 2020 تک کی واجب الادا رقم 24 اقساط میں وصول کی جائے گی۔
عدالت نے حکومت کو شمال جنوبی پائپ لائن منصوبہ پر کام چھ ماہ میں شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ تاپی منصوبہ پاکستانی سرحد تک پہنچتے ہی اس پر فوری کام شروع کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ حکومتی آرڈیننس غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ جی آئی ڈی سی ایک فیس ہے ٹیکس نہیں۔ جی آئی ڈی سی کو منی بل کے طور پر پاس نہیں کرا یا جا سکتا۔ حکومت جی آئی ڈی سی پر عملدرآمد کے لیے مکمل قانون سازی کرے۔ چھ ماہ کے اندر قانون سازی نہ کی گئی تو رقم کمپینوں کو واپس کر دی جائے۔ قدرتی گیس کی قلت اور طلب کے درمیان خلا کو پر کرنے کی ضرورت ہے۔

عدالت نے تاپی منصوبے پر فوری کام شروع کرنے کی بھی ہدایت کی ہے (فوٹو:اے پی پی)

یاد رہے کہ سیس کے خلاف مختلف نجی کمپنیوں نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ درخواست گزاروں کے حق میں سنایا تھا۔ جس کے خلاف وفاق نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
اسی دوران حکومت نے عدالت سے باہر معاملہ حل کرنے کے لیے آرڈیننس کے ذریعے جی آئی ڈی سی کے 220 ارب روپے معاف کر دیے تھے۔
میڈیا نے معاملہ اٹھایا تو اپوزیشن نے حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جس پر حکومت کو آرڈیننس واپس لینا پڑا تھا۔

شیئر: