Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترکی پر حماس قیادت کو شہریت دینے کا الزام

انہیں زیادہ آزادانہ طور پر سفر کرنے کی سہولت ملے جائے گی۔(فوٹو العربیہ)
ترکی نے فلسطین کی تنظیم حماس کے سینیئر رہنماؤں کو شہریت دینے کا عمل شروع کیا ہے۔ یہ دعویٰ برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف میں شائع ہونے والی خبر میں کیا گیا ہے۔
العربیہ نیٹ کے مطابق خبر میں مزید کہا گیا ہے کہ اس عمل سے یہ خدشہ پیدا  ہو رہا ہے کہ فلسطینی گروپ دنیا بھر میں اسرائیلی شہریوں پر حملوں کی منصوبہ بندی میں اضافہ کرسکتا ہے۔

 ترکی جانے والے "جنگجو" نہیں لیکن غزہ کے باہر نامور کارکن ہیں۔ (فوٹو: مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ)

برطانوی اخبار نے ملنے والی دستاویزات کے حوالے سے بتایا ہے کہ حماس کے 12 کارکنوں میں سے کم از کم ایک نے ترک شہریت اور 11 ہندسوں کا شناختی نمبر حاصل کیا ہے۔
اخبار نے ایک اہم ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاسپورٹ کے علاوہ 12 کارکنوں میں سے سات نے ترک شہریت حاصل کی ہے جبکہ باقی 5 افراد آنے والے دنوں میں شہریت حاصل کریں گے۔
ان میں سے کچھ  افراد نے اپنے نام تبدیل کرکے ترک ناموں کے مطابق رکھ لیے ہیں۔

حماس تنظیم کے ارکان فلسطینی علاقوں سے باہر کام نہیں کرتے (فوٹو: ٹوئٹر)

حماس کا کہنا ہے کہ اس کا بنیادی ہدف فلسطین کو اسرائیل کے قبضے سے آزاد کرانا اور اسلامی ریاست قائم کرنا ہے۔
ترکی کا اصرار ہے کہ حماس گروپ ایک سیاسی تحریک ہے اور یہ جمہوری طور پر غزہ میں کام کرتی ہے۔

ترکی کے مطابق حماس گروپ سیاسی تحریک ہے اور جمہوری طور پر غزہ میں کام کرتی ہے (فوٹو: عرب نیوز)

ذرائع نے بتایا کہ حماس کے جن سرکردہ لیڈروں کو شہریت دی گئی ہے وہ "جنگجو" نہیں ہیں لیکن وہ غزہ کے باہر حماس کے نامور کارکن ہیں۔
یہ کارکن اس وقت فنڈ جمع کر رہے ہیں اور اسرائیل کے خلاف حملوں میں مدد کرتے ہیں۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ترک حکومت نے حماس کے  جن کارکنوں کو شہریت دی ہے انہیں زیادہ آزادانہ طور پرسفر کرنے کی سہولت مل جائے گی۔

حماس کا بنیادی ہدف فلسطین کو اسرائیل کے قبضے سے آزاد کرانا ہے (فوٹو: العربیہ)

حماس کے سینیئر عہدیدار نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے اصرار کیا کہ حماس تنظیم کے ارکان فلسطینی علاقوں سے باہر کام نہیں کرتے اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ان کا کوئی کردار نہیں۔
 

شیئر: