Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کے ساتھ تعلقات مستحکم رہیں گے: صدر

صدر نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینے کا خواہاں ہے (فوٹو: قومی اسمبلی)
بدھ کو جب قومی اسمبلی میں نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر مشترکہ اجلاس سے ڈاکٹر عارف علوی خطاب کرنے آئے تو اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے ڈیسک بجا کر شور مچانا شروع کر دیا، شدید احتجاج کیا گیا اور نعرے بازی ہوتی رہی۔
اس پر صدر مملکت نے کہا  کہ ’میں سوچ رہا تھا کہ پچھلے سال کے مقابلے میں اس بار بات آرام سے سن لی جائے گی۔
اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کے باوجود صدر نے خطاب جاری رکھا اور مختلف معاملات پر بات کرتے چلے گئے۔
صدر مملکت نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعلقات کو مزید فروغ دینے کا خواہاں ہے۔

 

'سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا اور اس سلسلے میں ہم اپنے برادر اسلامی ملک کے انتہائی مشکور ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات مستحکم ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ اسرائیل کے معاملے پر وزیراعظم کے دوٹوک موقف سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ ہم محمد علی جناح کی پالیسی پر قائم ہیں۔
صدر ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ پاکستان واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور اس پر افواج اور سیاست دان مبارک باد کے مستحق ہیں۔
صدر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہ ’ہمارا دوسرا بڑا کارنامہ افغان مہاجرین کو پناہ دینا تھا۔ تیس پینتیس لاکھ افراد کو اتنے سال تک پناہ دینا کوئی چھوٹی بات نہیں ہمیں طعنے دینے والے خود سو مہاجرین کو بھی پناہ نہیں دے سکتے۔
انہوں نے کہا کہ انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا قوم کی بہت بڑی جیت ہے۔
عارف علوی نے کہا کہ جب حکومت میں آئے تو ملک کرپشن میں جکڑا اور قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ ’ہمیں آتے ہی آئی ایم ایف اور دوستوں سے امداد کا مشورہ دیا گیا۔‘
صدر نے کورونا وائرس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں ہونے والے اقدامات پر اعتراضات کیے گئے اور کہا گیا کہ اگر مکمل لاک ڈاؤن نہ ہوا تو لوگ سڑکوں پر مریں گے۔
'اس کے باوجود جو اقدامات کیے گئے ان کے مثبت نتائج سامنے آئے اور آج ملک میں صورت حال بہت بہتر ہو رہی ہے۔'

صدر کے خطاب کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا (فوٹو اے ایف پی)

صدر نے طارق بن زیاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے واپسی کا راستہ رکھنے کے بجائے کشتیاں جلائیں، حالانکہ عقل بھی یہی کہتی ہے کہ اگر کامیابی نہ ملی تو واپس تو جایا جا سکے، مگر اس کے باوجود انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے وہ راستہ اختیار کیا کہ معیشت بھی چلے اور عبادت گاہیں بھی کھلیں۔ ’یہ اس قدم کی برکت ہی تھی کہ حالات بہتر ہوتے چلے گئے۔‘
صدر کے خطاب کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

شیئر: