Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شیر کے دھڑ والے طلسمی پرندے کی داستان 

فارسی میں مُرغ زار کی جگہ ’باغِ پرندگان‘ استعمال ہوتا ہے (فوٹو: ان سپلیش)
علامہ اقبال بڑے شاعر ہیں۔ ان کی شاعرانہ خوبیوں میں سے ایک ’منظرنگاری‘ بھی ہے۔ کلام کی یہ خوبی آپ کو ’اسرار خودی‘ سے ’ارمغانِ حجاز‘ تک بیشترمقامات پر ملے گی۔ ’بانگ درا‘ حصہ سوم میں شامل ایک نظم کا ایک شعر ہے:  
پھرتی ہے واديوں ميں کيا دخترِخوش خرام ابر
کرتی ہے عشق بازياں سبزۂ مرغزار سے 
ہمیں وادیوں میں مٹرگشت کرتی ’دخترابر‘ اور اُس کی عشق بازی سے کوئی سروکار نہیں البتہ مصرع ثانی میں لفظ  ’مرغزار‘ سے دلچسپی ہے۔
ہم ایک مدت تک اس لفظ کو میم کے زبر کے ساتھ ’مَرغزار‘ پڑھتے رہے، پھر ایک روز دامن کوہ (اسلام آباد) جانا ہوا، جہاں ایک رہنما بورڈ پر ’آؤٹ لائن‘ میں بنے پرندے کے نیچے Muraghzar (مُرغ زار) لکھا تھا۔ یہ اسلام آباد کے ’چڑیا گھر‘ کا نام ہے۔ پہلے تو درست تلفظ ’مُرغ زار‘ جان کر خوشی ہوئی، پھر ’چڑیا گھر‘ کی مناسبت سے جو معنی سمجھ آئے اُس کے مطابق: ’جہاں بہت سے مُرغ (پرندے) ہوں وہ مقام ’مُرغ زار‘ قرارپایا‘۔‘
مگراستاد سے رجوع کرنے پر پتا چلا کہ ’مَرغ زار‘ اور ’مُرغ زار‘ دو مختلف فارسی ترکیبیں ہیں۔ ان میں نا صرف ’مَرغ‘ و ’مُرغ‘ دو الگ الفاظ ہیں بلکہ دونوں کا ’زار‘ بھی جداگانہ معنی رکھتا ہے۔ 
ہمارے لیے یہ حیران کُن بات تھی، سو اس اجمال کی تفصیل طلب کرنے پر معلوم ہوا کہ میم کے زبر کے ساتھ ’مَرغ‘ کے معنی گھاس ہیں، جب کہ ’زار‘ جگہ، مکان اور مقام کا ظاہر کرتا ہے۔
اس لیے وہ جگہ جہاں بکثرت گھاس ہو ’مَرغ زار‘ کہلاتی ہے۔ اس کے مترادفات میں چمن زار، سبزہ زار اور چراگاہ شامل ہے۔ اسی کے ساتھ زعفران زار اور لالہ زار کی ترکیبوں پر غور کریں تو بات اور آسان ہو جاتی ہے۔  

وہ جگہ جہاں بکثرت گھاس ہو ’مَرغ زار‘ کہلاتی ہے (فوٹو: ان سپلیش)

جہاں تک میم پر پیش کے ساتھ ’مُرغ زار‘ کی بات ہے تو اس ترکیب میں ’مُرغ‘ کے معنی ’پرندہ‘ اور ’زار‘ کے معنی ’ناتواں، لاغر، ضعیف اور کمزور‘ ہیں۔ یوں جو پرندہ ناتواں یا کمزور ہو اسے فارسی میں ’مُرغ زار‘ کہتے ہیں۔ 
یعنی ’چڑیا گھر‘ کے لیے ’مُرغ زار‘ درست ترکیب نہیں؟ ہم نے پُرتشویش انداز میں پوچھا۔ 
استاد نے ہماری بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ چڑیا گھر کا نام مَرغ زار(مَرغزار) ہے مگر کسی بقراط نے رہنما بورڈ پر Muraghzar (مُرغ زار) لکھ کر ’کنفیوژن‘ کا سامان کردیا ہے۔ 
اگر گھاس والا مقام ’مَرغ زار‘ ہے تو پرندوں والا ’مُرغ زار‘ کیوں نہیں ہوسکتا؟ ہم نے تکنیکی نکتہ اٹھایا۔ 
استاد دھیمے لہجے میں گویا ہوئے: اصفہان کو اہل دل ’اصفہان نصف جہان‘ کہتے ہیں۔ اس تاریخی شہر میں ایک تفریحی مقام ہے جہاں دنیا بھر کے خوش رنگ و خوش آہنگ پرندے جمع ہیں۔ اس جگہ کو اہل ایران نے ’باغِ پرندگان‘ کا نام دیا ہے۔ اگر یہ اہل زبان ضروری سمجھتے تو اس کے لیے’ مُرغ زار‘ کا لفظ استعمال کر سکتے تھے مگر انہوں نے کسی بھی الجھاؤ سے بچنے کے لیے ’باغِ پرندگان‘ برتا ہے۔ اگر بات سمجھ آگئی ہو تو’پرندگان‘ کی رعایت سے جون ایلیا کا شعر سنو: 
بتاؤ دام گرو چاہیے تمہیں اب کیا 
پرندگان ہوا خاک پر اتر آئے 
پرندوں کی دنیا بہت رنگا رنگ ہے۔ اس میں کچھ پرندے ایسے بھی ہیں جن کا معاملہ ’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘ والا ہے۔ کیوں کہ یہ افسانوی پرندے ہیں۔

’مُرغ‘ کے معنی ’پرندہ‘ اور ’زار‘ کے معنی ’ناتواں کے ہیں (فوٹو: ان سپلیش)

ان کا ذکر اساطیری ادب اورلوک داستانوں میں تو ملتا ہے مگر یہ خود کہیں نہیں ملتے۔ ان میں ایک پرندہ ’ہُما‘ ہے۔ مشہور ہے کہ ’ہُما‘ کا سایہ جس کے سر پر پڑجائے وہ بادشاہ بن جاتا ہے۔ میر انیس نے ایک شعر میں اسی جانب اشارہ کیا ہے: 
آپس میں یہ کہتے تھے رفیقانِ دلاور 
دیکھیں یہ ہُما سایہ فگن ہوتا ہے کس پر 
غالباً اسی ’ہُما‘ سے لفظ ’ہُمایُوں‘ بھی ہے جس کے معنی میں ’خوش قسمت، بلند اقبال، مبارک،مقدس، شاہانہ اور ہمت‘ وغیرہ شامل ہے۔ اردو میں’ہُمایوں‘ کی رعایت سے درجنوں محاورے وابستہ ہیں جو عام بول چال سے خارج ہوجانے پر اب فقط لغات میں نظرآتے ہیں۔ تاہم برصغیر میں بچوں کے نام ’ہُما‘ اور ’ہُمایُوں‘ رکھنے کا رواج آج بھی ہے۔  
قدیم یونانی، عربی، ایرانی، ہندی اور چینی داستانوں میں ایک اور افسانوی پرندے کا ذکر ملتا ہے۔ اس پرندے سے متعلق چند جُزی اختلافات کے باوجود کہانی کا مرکزی مضمون ہر جگہ مشترک ہے۔ یہ پرندہ یونانی زبان میں فینکس (Phoenix)، عربی میں ’عنقا‘، فارسی میں سیمرغ اور قُقنس، ہندی میں امرپکھشی یا مایا پنچھی جب کہ چینی زبان میں فینگھوانگ (Fenghuang) کہلاتا ہے۔ 
مشہور ہے كہ اس کا سر پرندے کا اور دھڑ شیر کا ہوتا ہے۔ اس خوش رنگ اور خوش آواز پرندے كی چونچ میں تین سو ساٹھ سوراخ ہوتے ہیں اور ہر سوراخ سے ایک راگ نكلتا ہے۔ اس كی عمر ایک ہزار سال تک ہوتی ہے، جب عمر كی مدّت پوری ہوجاتی ہے تو یہ پرندہ سوكھی لكڑیاں جمع كر كے ان پر بیٹھتا ہے اور مستی كے عالم میں گاتا اور پروں كو پھڑپھڑاتا ہے۔

فینکس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ راکھ بن کر دوبارہ زندہ ہوتا ہے (فوٹو: ان سپلیش)

جب اس كی چونچ سے دیپک راگ نكلتا ہے تو لكڑیوں میں آگ لگ جاتی ہے اور یہ اس میں جل كر راكھ ہوجاتا ہے۔ پھر خدا كی قدرت سے اس راكھ پر مینہہ برستا ہے اور اس میں سے خود بخود انڈا پیدا ہوجاتا ہے اور كچھ مدّت كے بعد اس انڈے میں سے ایک اور پرندہ  پیدا ہوتا ہے۔ 
عربی میں ’عنق‘ گردن کو کہتے ہیں۔ چوں کہ اس پرندے کی گردن لمبی ہوتی ہے لہٰذا اس نسبت سے اسے ’عنقا‘ کہتے ہیں۔ جب کہ فارسی میں اسے ’سیمرغ‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں تیس (سی) پرندوں (مرغ) کی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ہندی میں یہ اس لیے ’امرپکھشی‘ یعنی سدا زندہ رہنے والا پرندہ ہے کہ یہ مر کر دوبارہ جی اٹھتا ہے۔ 
اس کہانی میں ایک الجھاؤ ہے اور وہ یہ کہ بعض صاحبان لغت کے مطابق عنقا، سیمرغ اورامر پکھشی ہی دراصل ’ہُما‘ ہے۔ ویسے یہ سب افسانوی باتیں ہیں اس لیے سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ چوں کہ یہ پرندہ موجود ہو کر بھی نظر نہیں آتا اس لیے عربی کی رعایت سے فارسی اور اردو میں کمیاب، نایاب اور معدوم چیز کو بھی ’عَنقا‘ کہتے ہیں۔ اب ’عنقا‘ کی مناسبت سے میرزا غالب کا مشہور شعر ملاحظہ کریں اور ہمیں اجازت دیں: 
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے 
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا 

شیئر: