Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں مودی کی سالگرہ' قومی یوم بےروزگاری' قرار

لیبر کی وزارت کے مطابق ایک کروڑ چار لاکھ افراد نے 25 مارچ سے 31 اگست کے درمیان اپنے پراویڈنٹ فنڈ سے پیسے نکالے ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز
انڈیا میں بے روزگاری اپنے عروج پر ہے اور شاید اسی وجہ سے گذشتہ روز 17 ستمبر کو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے یوم پیدائش پر سوشل میڈیا میں 'راشٹریہ بے روزگار دیوس' یعنی 'قومی یوم بےروزگاری' کے طور پر منایا گیا۔
اس کے علاوہ اسی کے تعلق سے 'نیشنل ان امپلائمنٹ ڈے' اور '17ستمبر17 آور17منٹ' بھی ٹرینڈ کر رہا تھا۔ ان ہیش ٹیگز کے متعلق 50 لاکھ سے زیادہ ٹویٹس نظر آئیں۔
حکومت اسے کووڈ 19 کا سبب قرار دیتی ہے جبکہ حزب اختلاف اسے حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کہہ رہی ہے۔
سینٹر فار مونیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے مطابق امسال مئی سے اگست کے درمیان انڈیا میں تقریباً 66 لاکھ 'وائٹ کالر جاب' ختم ہوئی ہیں جن میں انجینیئرز، ڈاکٹرز، ٹیچرز وغیرہ شامل ہیں۔
دوسری جانب اپریل سے جون سنہ 2020 کی پہلی مالی سہ ماہی میں انڈیا کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔ نیشنل سٹیٹسٹکس آفس (این ایس او) کے مطابق گذشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں تازہ سہ ماہی میں منفی تقریباً 24 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ اس سے قبل والی سہ ماہی میں ترقی کی شرح تین اعشاریہ ایک فیصد تھی۔
مئی میں سی ایم آئی ای نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ 20 سے 30 سال کی عمر کے درمیان والے نوجوانوں میں دو کروڑ 70 لاکھ افراد نے اپریل میں اپنی نوکریاں گنوائی ہیں۔
کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے ملک میں بے روزگاری میں اضافے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے گذشتہ روز جمعرات کو ٹویٹ کیا کہ 'وسیع پیمانے پر بے روزگاری نے نوجوانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ آج کے دن کو نیشنل ان امپلائمنٹ ڈے قرار دیں۔ روزگار ایک وقار ہے اور کب تک حکومت اس کو مسترد کرتی رہے گی؟
 
 
انھوں نے ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کو ٹویٹ کرتے ہوئے یہ بات لکھی۔ ہندوستان ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ملک میں ایک کروڑ تین لاکھ لوگوں کو نوکریوں کی تلاش ہے لیکن ملک کی 20 ریاستوں میں صرف ایک لاکھ 77 ہزار نوکریاں ہی ہیں۔
ایک صارف نے نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ 'ہر سال دو کروڑ نوکریوں کا وعدہ کرنے والے نے 12 کروڑ افراد کو بے روزگار کر دیا۔'
 
 
خیال رہے کہ انڈیا میں غیر منظم شعبے میں بھی بڑے پیمانے پر نوکریاں گئی ہیں۔ انڈیا کی معیشت پر نظر رکھنے والے بہت سے اداروں کا کہنا ہے کہ حالات اس سے زیادہ خراب ہیں۔ غیر منظم شعبے میں لاک ڈاؤن کھلنے کے سبب کچھ لوگوں کو گاہے گاہے روزگار مل رہے ہیں لیکن منظم شعبے میں جو نوکریاں گئی ہیں ان کا واپس آنا مشکل ہے۔
انڈیا میں بے روزگاری کے ساتھ نئی پریشانی مہنگائی میں اضافہ ہے۔ کھانے پینے کی ضروری اشیا روز بروز مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ آلو، پیاز، ٹماٹر اور سبزیوں کی قیمتیں روزانہ کے اعتبار سے پورے ملک میں بڑھ رہی ہیں اور حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح فی الحال 9.05 فیصد ہے۔
معروف انڈین صحافی سگاریکا گھوش نے 'نیشنل ان امپلائمنٹ ڈے' کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹویٹ کیا: '60 لاکھ وائٹ کالر پیشہ ور اور 50 لاکھ صنعتی ورکرز کی نوکریاں مئی سے اگست کے درمیان راتوں رات چلی گئیں۔ مودی حکومت کو یہ اعدادوشمار ڈراتے رہیں گے۔'
 
 
انڈیا میں نوکریاں جانے اور مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے لوگ بڑے پیمانے پر اپنے پرویڈنٹ فنڈ سے پیسے نکال رہے ہیں۔ انگریزی کے اخبار منٹ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں نے مجموعی طور پر تقریباً 40 ہزار کروڑ روپے اپنے پراویڈینٹ فنڈ سے نکالے ہیں۔
لیبر کی وزارت کے مطابق ایک کروڑ چار لاکھ افراد نے 25 مارچ سے 31 اگست کے درمیان اپنے پراویڈنٹ فنڈ سے پیسے نکالے ہیں۔ حکومت کے مطابق ان میں سے 82 لاکھ لوگ ایسے ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ 15 ہزار روپے سے کم ہے۔ ان اعدادوشمار سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بے روزگاری اور مہنگائی کا شکار سب سے زیادہ غریب طبقہ ہوا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ جس طرح سے انڈیا میں روزانہ کووڈ 19 کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے انڈیا کی معیشت کی جلد بحالی بہت مشکل امر ہے۔
دریں اثنا گذشتہ روز انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے مختلف شہروں اور دوسری ریاستوں میں بھی لوگ بڑی تعداد میں بے روزگاری کے خلاف سڑکوں پر اترے، انھیں حزب اختلاف کی جماعتوں کی حمایت بھی شامل تھی۔

شیئر: