Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کب کب حکومت مخالف اتحاد بنے؟

اپوزیشن جماعتوں نے ایک بار پھر ’پاکستان ڈیموکریٹک موومینٹ‘ (پی ڈی ایم) کے نام سے نیا اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا ہے (فوٹو:ٹوئٹر)
پاکستان کی اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف نئے اتحاد بنانے کا اعلان کرتے ہوئے آئندہ سال جنوری میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے ایک بار پھر ’پاکستان ڈیموکریٹک موومینٹ‘ (پی ڈی ایم) کے نام سے نیا اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو حکومت وقت کے خلاف حزب اختلاف نے متعدد مشترکہ تحریکیں شروع کیں۔ 1968 میں فوجی حکومت کے پہلے صدر ایوب خان کے خلاف نوابزادہ نصراللہ خان نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر اکٹھا کیا جس کے نتیجے میں ملک میں فوجی حکومت کے خلاف احتجاج نے زور پکڑا۔
ایوب خان کے مخالف تحریک میں ایئر مارشل اصغر خان پیش پیش تھے تاہم پاکستان پیپلر پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو نے خود کو سیاسی طور پر مستحکم کیا اور وہ ایک نمایاں لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔
اس اتحاد کے نتیجے میں ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں شروع ہوئیں جس میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔
1969 مظاہروں میں شدت آئی تو صدر ایوب نے استعفی دیا اور اقتدار کا ہما اس وقت کے کمانڈر ان چیف یحیٰ خان کے سر سجا جس کے بعد لیگل فریم ورک آرڈر طے کیے گئے اور 1970 میں انتخابات کروائے گئے جس کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک اور تنازع پیدا ہوا اور ملک تقسیم ہو گیا۔

صدر ایوب خان کے خلاف نوابزادہ نصراللہ خان نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر اکٹھا کیا (فوٹو:فلکر)

1977 کے انتخابات سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف ’پاکستان نیشنل الائنس ‘کے نام سے اپوزیشن کی نو جماعتوں نے اتحاد قائم کیا۔ تحریک استقلال کے اصغر خان، جماعت اسلامی کے مولانا مودودی، جمعیت علمائے  پاکستان کے شاہ احمد نورانی اور اے این پی خان عبد الولی خان کی قیادت میں قائم کیے جانا والے اس اتحاد کو 1977 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ہاتھوں بدترین شکست ہوئی۔
اپوزیشن کے اتحاد نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا، انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا۔ احتجاج میں شدت آنے کے بعد فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے ملک میں ایک بار پھر مارشل لاء نافذ کر دیا۔
اپوزیشن کا یہ اتحاد اتنا کمزور ثابت ہوا کہ ضیاء الحق کے اقتدار سنبھالتے ہی اتحاد میں شامل متعدد جماعتیں ان کی کابینہ کا حصہ بن گئیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اور بڑا اتحاد ایم آر ڈی (موومینٹ فار ریسٹوریشن فار ڈیموکریسی) تھا جو1981 میں بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی قیادت میں ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف قائم کیا گیا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپوزیشن جماعتوں کا یہ اتحاد طویل مدت کے لیے تھا جو 1981 سے 1988 تک قائم رہا۔ اس اتحاد میں پاکستان پیپلز پارٹی، قومی عوامی تحریک، تحریک استقلال، جمیعت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان شامل تھیں۔
1988 کے انتخابات سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی مخالف اسلامی جمہوری اتحاد  (آئی جے آئی) کے نام سے نو جماعتوں کا اتحاد قائم ہوا۔ جس میں مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور نینشل پیپلز پارٹی شامل تھیں۔

 1977 کے انتخابات سے قبل ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کے خلاف ’پاکستان نیشنل الائنس ‘کے نام سے اپوزیشن کی نو جماعتوں نے اتحاد قائم کیا (فوٹو:فلکر)

1988 کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب تو پنجاب میں نوازشریف ایک مقبول سیاستدان کے طور پر ابھرے اور وزیراعلی پنجاب کا عہدہ سنبھال لیا۔

’پاکستان ڈیموکریٹک موومینٹ‘ کس حد تک کامیاب ہوگی؟

سینئیر صحافی مظہر عباس اپوزیشن کی جانب سے اعلان کردہ پاکستان ڈیموکریٹک موومینٹ کو عمران خان کی حکومت کے خلاف 'پہلا موثر اقدام' قرار دیتے ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'پاکستان میں دو بڑے موثر اتحاد بنے ہیں ایک ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے بنا تھا لیکن وہ انتخابات سے قبل بنا اور انتخابی اتحاد کی شکل اختیار کی تھی جبکہ سب سے موثر اور نظریاتی اتحاد ایم آر ڈی تھا جو ضیاء الحق حکومت کے خلاق قائم کیا گیا۔'
انہوں نے کہا کہ 'موجودہ اپوزیشن کا اتحاد ایم آر ڈی کے قریب تر ہو سکتا ہے لیکن یہ اتحاد کوئی پائیدار شکل اختیار کر پاتا ہے یا نہیں یہ نومبر سے دسمبر تک پتہ چل جائے گا۔'
سینیئر صحافی عارف نظامی کے مطابق حکومت کے اقدامات کے باعث حزب اختلاف کی جماعتیں اکٹھی ہونے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ 'نوازشریف فرنٹ فٹ پر سامنے آئے ہیں وہ پہلے بھی فرنٹ فٹ پر آتے رہے ہیں لیکن اس بار کیا نتیجہ نکلے گا اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔'
عارف نظامی کے بقول 'الفاظ کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اب عمل کیا ہوتا ہے کیونکہ سٹار بیٹسمین اس وقت نواز شریف ہیں شہباز شریف نہیں۔'

سینئیر صحافی مظہر عباس پاکستان ڈیموکریٹک موومینٹ کو عمران خان کی حکومت کے خلاف 'پہلا موثر اقدام' قرار دیتے ہیں (فوٹو:ٹوئٹر)

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کی فضا کم ضرور ہوئی ہے۔ 'اپوزیشن کے درمیان جو شکوک و شبہات تھے وہ دور تو نہیں ہوئے لیکن کم ضرور ہوئے ہیں اور دونوں کو دیوار سے لگایا ہوا ہے اس لیے دوسرا کوئی آپشن بھی موجود نہیں ہے۔'
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیک ڈور رابطوں کے حوالے سے عارف نظامی کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے مقتدر حلقوں کے ساتھ رابطے ہیں اور نواز شریف کی تقریر کو براہ راست دکھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔'
سینیئر صحافی مظہرعباس نے نواز شریف کی تقریر کو براہ راست نشت کرنے کے حوالے سے بتایا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی تقریر کو براہ راست نشر کرنے میں وزیراعظم اور اسٹیبلیشمنٹ دونوں کا کردار ہو سکتا ہے۔ ’ایسا ہرگز نہیں ہے کہ میڈیا ہاؤسز پیمرا کی ہدایات کے مخالف کوئی قدم اٹھائیں، اس لیے میڈیا ہاؤسز کا اس میں کوئی کردار نہیں البتہ وزیراعظم نے اس حوالے سے نظرثانی کی ہے یا پھر اسٹیبلیشمنٹ چاہتی تھی کہ ان کی تقریر کو نشر کرنے کی اجازت دی جائے۔'

شیئر: