Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک جیسی کہانیوں سے اکتا کر چار سال کام نہیں کیا: محب مرزا

محب مرزا ہیں کہ آج کا ڈرامہ بے ہودہ کہانیوں میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
اداکار محب مرزا کہتے ہیں کہ ایک ہی طرح کی کہانیاں بن رہی تھیں جس کی وجہ سے وہ اکتا گئے اور چار سال تک کام ہی نہیں کیا، جب انہیں محسوس ہوا کہ کہانیوں میں تبدیلی آ رہی ہے تو انہوں نے ڈرامہ سیریل 'دلربا' اور 'دشمن جاں' سائن کیا۔
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ '18 سال کی عمر سے اداکاری کر رہا ہوں ایک عمر میں آکر لگا کہ جو کونٹینٹ ہم دکھا رہے ہیں اس میں مردوں کے کردار کو کم کر دیا گیا ہے، کہیں اس کو بہت ہی نیگیٹو تو کہیں پازیٹیو دکھایا جا رہا ہے۔'
محب مرزا کے مطابق کہ انہیں ہزاروں سکرپٹ پڑھنے کے بعد محسوس ہوا کہ یہ مناسب نہیں ہے کہ ایک مرد پہلے عورت کو تھپڑ مار رہا ہو اور پھر اسے سوری کہہ دے، ہم بچوں کو ایسے ڈرامے دکھا کر کیا بتانا چاہ رہے ہیں کہ ہم دروازہ بند کر کے عورت پر ظلم کر سکتے ہیں۔ 'بس یہی وجہ تھی کہ میں ایسے ڈراموں اور کہانیوں کے خلاف ہو گیا، میں اناﺅنس نہیں کرنا چاہتا تھا نہ ہی اس کا ایمبیسڈر بننا چاہتا تھا بس اس چیز کو اپنے کام کے ذریعے ٹھیک کرنا چاہتا تھا۔'
محب مرزا چونکہ فلموں میں بھی کام کر چکے ہیں تو انہوں نے فلموں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ملک میں المیہ یہ ہے کہ لوگ یہاں انٹرٹینمنٹ فری دیکھنا چاہتے ہیں اس پر پیسے خرچ نہیں کرنا چاہتے اور اپنی فلموں کا مقابلہ ہم ہندوستان جیسی انڈسٹری سے کرتے ہیں جو کہ بہت ہی غلط بات ہے۔‘
'جب لوگ سینما گھروں میں نہیں جائیں گے تو ڈیمانڈ نہیں بڑھے گی، ڈیمانڈ نہیں بڑھے گی تو پروڈکشن کیسے آئے گی۔ اب کسی بھی فلم کو ایگزیبٹ کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ جو باہر سے فلمیں خرید کر سینما گھروں میں لگائی جاتی ہیں ان کی ٹکٹ بھی اتنی ہی رکھی جاتی ہے جتنی یہاں کی پروڈکشن کا ٹکٹ ہوتا ہے۔‘
فلمیں بنانے کے لیے سید نور اور سنگیتا جیسے ڈائریکٹرز کی خدمات کیوں نہیں لی جاتیں؟ اس پر محب مرزا کہتے ہیں کہ ان لوگوں سے مدد لینے کے نقطہ نظر سے کام کا آغاز کرنا الگ بات ہے اور ان کی فلم میکنگ پر کمنٹ کرنا الگ بات ہے۔
محب مرزا مانتے ہیں کہ ہر دور کے الگ تقاضے ہوتے ہیں ’اب جیسے پچھلے ایک سال میں دنیا ہی بدل گئی ہے تو تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا میں کام کے تقاضے بھی تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں اب پرانے لوگوں کو سمجھانا اور پھر ان سے کام لینا یہ ذرا مشکل کام ہوجاتا ہے ہاں اگر کوئی انفرادی حیثیت میں خود کو وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے اپڈیٹ کرتا رہے تو ان سے کام لینا آسان ہو جاتا ہے۔‘

محب مرزا کہتے ہیں کہ جب لوگ سینما گھروں میں نہیں جائیں گے تو ڈیمانڈ نہیں بڑھے گی۔ فوٹو: فیس بک

'اگر کسی نے خود کو اپڈیٹ نہیں کیا ہو گا تو ظاہر ہے کام کے لیے ایسے ہی لوگوں کا انتخاب کیا جائے گا جو اس ٹرینڈ اور لوگوں کے مزاج کو سمجھ رہے ہوں۔'
محب کا ماننا ہے کہ 'فلم میں ڈرامے کا رنگ نظر آنے کی وجہ سکرین پلے ہے جو کہ ڈرامے کی طرح لکھا ہوا ہوتا ہے۔' 
بڑی سکرین پر کام کرنے کے تجربے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے محب کہتے ہیں کہ ’ہمارے ہاں فلم سے زیادہ ڈرامہ دیکھا جاتا ہے اور ڈرامے کا اگر کوئی فنکار فلموں میں کام کرے تو سمجھ لیں کہ یہ چیز اس ایکٹر کے لیے ایک اضافی تمغہ ہے کہ اس نے فلم کے لیے بھی کام کیا ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ 'ڈراموں کے بعد فلموں میں کام کرنے کا میرا تجربہ اچھا رہا ہے۔ ایک وقت تھا کسی بھی اداکار کے لیے فلم میں کام کرنا بہت ہی اہمیت کا حامل ہوتا تھا اب بھی ہے لیکن اب ذرا وقت تبدیل ہو گیا ہے کہ ایمازون اور نیٹ فلیکس جیسے پلیٹ فارمز کے لیے کام کرنا کسی بھی اداکار کا خواب ہے۔'
محب یہ بھی مانتے ہیں کہ آج کا ڈرامہ بے ہودہ کہانیوں میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ 'جس طرح سے کہانیوں میں رشتوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے میں اس طرح کے ویلیو سسٹم کو بڑھاوا دینے کے بہت خلاف ہوں۔'

'فلم میں ڈرامے کا رنگ نظر آنے کی وجہ سکرین پلے ہے جو کہ ڈرامے کی طرح لکھا ہوا ہوتا ہے۔' فوٹو: فیس بک

محب مرزا کہتے ہیں کہ ان کی حال ہی میں جن اداکاراﺅں کے ساتھ جوڑی بہت پسند کی گئی ان میں طوبہ صدیقی اور مدیحہ امام کے نام قابل ذکر ہیں۔ ہانیہ ہامر کے ساتھ بھی ان کی جوڑی کو بہت سراہا گیا جس پر وہ بہت خوش ہیں۔
'ایک اداکار کی جوڑی کسی اداکارہ کے ساتھ پسند کی جائے تو اچھی بات ہے لیکن اس اداکار کو پھر اسی جوڑی کے چارم میں پھنس کر نہیں رہ جانا چاہیے بلکہ اسے ہر اداکارہ کے ساتھ کام کرنا بھی چاہیے اور کوشش بھی کرنی چاہیے کہ وہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرنے میں کامیا ب ہو۔'
محب کہتے ہیں کہ وہ اداکار ہیں ماڈل نہیں لیکن اگر کوئی اشتہار ملے تو کر لیتے ہیں اور اس کے لیے انہیں فوٹو شوٹ بھی کروانا پڑتا ہے تو وہ اسے ماڈلنگ نہیں مانتے بلکہ کام سمجھ کر ہی کر رہے ہوتے ہیں۔
ریمپ پر واک کرنے کے لیے ہینگر نما جسامت چاہیے ہوتی ہے تاکہ آپ اس طرح سے نظر آئیں کہ جس میں زیادہ کپڑوں پر توجہ ہو۔ سلیبرٹیز کو اگر ریمپ پر واک کے لیے بلایا جاتا ہے تو وہ صرف بطور شوسٹاپر جاتے ہیں پورے شو کے لیے نہیں۔ تو مجھے بھی ایسے ہی بلایا جاتا ہے تو میں چلا جاتا ہوں۔'
محب مرزا کا کہنا ہے کہ ماڈلنگ جب تک دل کرے کی جا سکتی ہے، ارج منظور اور نادیہ حسین ایسی ماڈلز ہیں جنہوں نے کافی دیر تک ماڈلنگ کی۔

محب مرزا کہتے ہیں شادی شدہ زندگی اچھی گزاری اور علیحدگی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا۔ فوٹو: فیس بک

آنے والے پراجیکٹس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے محب مرزا نے بتایا کہ انہوں نے ایک فلم ڈائریکٹ کی ہے جس کی ایڈیٹنگ آج کل جاری ہے اس میں وہ خود اداکاری بھی کر رہے ہیں، فلم کو پاکستان اور تھائی لینڈ میں شوٹ کیا گیا ہے۔
بطور ڈائریکٹر محب کہتے ہیں کہ ’میں نے دیکھا کہ پروڈکشن کی ساری ڈیزائن تو ڈائریکٹر کو کرنی پڑتی ہے، سکرین پلے رائٹر کے ساتھ بیٹھ کر لکھوانا پڑتا ہے بہت ساری مینجمنٹ سے متعلقہ ذمہ داریاں ھی ڈائریکٹر کو دیکھنی پڑتی ہیں لیکن سب کر کے مجھے اچھا لگا۔'
آمنہ شیخ کے ساتھ تعلق کی خرابی میں آپ کی ایک ساتھی اداکارہ کا نام آیا اس میں کس حد تک سچائی ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ نے جس طرف اشارہ کیا ہے ایسی کوئی کہانی نہیں ہے نہ ہی اس لڑکی کا کوئی کردار ہے۔ بارہ تیرہ برس کی شادی شدہ زندگی اچھے سے گزاری لیکن علیحدگی کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔
محب مرزا نے ایک پوسٹ لکھی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مجھے نہیں پتہ میری بیٹی کہاں ہے۔ اس پوسٹ سے متعلق سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ ’بس اتنا ہی کہوں گا کہ مجھے نہیں پتہ کہ میری بیٹی کہاں ہے۔'

شیئر:

متعلقہ خبریں