Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ کے شہریوں کے لیے واپسی کے راستے مسدود

الکردی اہل خانہ کے ساتھ گذشتہ دسمبر میں غزہ سے نکلے تھے۔(فوٹو عرب نیوز)
اسرائیل اور فلسطین کے  تعلقات میں تعطل  کے باعث غز ہ پٹی کے  رہنے والوں کے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور کئی خاندان بیرون ملک پھنس گئے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق گذشتہ چار ماہ سے  احمد الکردی،اس کی اہلیہ سمیت تین بچے اردن میں رہ رہے ہیں ۔ وہ غزہ پٹی میں واقع اپنے گھر سے 2 سالہ بچی کو تشویش ناک حالت میں لے کر یہاں پہنچے تھے۔
کورونا وائرس کے دوران احتیاطی تدابیر سرحدوں کی بندش اور سفری پابندیوں کا باعث بنی تھیں لیکن یہ افراد  اب تک  خود کو پھنسے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ یہ رکاوٹ انضباطی اقدامات کے باعث نہیں  بلکہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مابین تنازع کی وجہ سے ہے۔

اردن میں موجود غزہ کے شہریوں کے لئے واپسی انتہائی مشکل ہے۔ (فوٹو ٹوئٹر)

مقبوضہ مغربی کنارے اور اسرائیل کے راستے غزہ واپس جانے کے لئے انہیں اسرائیل سے  اجازت نامے کی ضرورت ہے ۔
اسرائیل کے ساتھ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کا الحاق کرنے کے خلاف احتجاج کے لئے فلسطینیوں نے مئی میں تعلقات باضابطہ طور پر منقطع کر لیے تھے جس سے سفری اجازت ملنا مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔
فلسطینیوں کو  امید  تھی کہ اسرائیل پر دباؤ  ڈالنے سے انہیں  نصف صدی  قبل کی حیثیت پر واپس جانے پر مجبور کر دیں گے مگر اس فیصلے سے بنیادی طور پر عام فلسطینیوں کو ہی  تکلیف ہوئی ہے  اور اسرائیل نے  زندگی کے ہر معاملے میں مسائل کھڑے کر دیئے ہیں۔

اسرائیل نے  زندگی کے ہر معاملے میں مسائل کھڑے کر دیئے ہیں۔(فوٹو عرب نیوز)

الکردی اور اس کی اہلیہ جو اپنے بچوں کے ساتھ گذشتہ دسمبر میں غزہ سے نکلے تھے ان دنوں اردن کے دارالحکومت عمان میں کرایہ پر رہ رہے ہیں جہاں ہر چیز کی قیمتیں غزہ سے کہیں زیادہ ہیں اور ان کا اپنے رشتہ داروں پر انحصارہے۔
وہ ان درجنوں خاندانوں میں شامل ہیں جو صحت یا دیگر وجوہات کی بنا پر غزہ سے باہر گئے اور اب  واپس  اپنے گھروں میں نہیں آسکتے۔
الکردی نے عمان میں فلسطینی سفارتخانے کے ذریعے  واپسی کے اجازت نامے کی درخواست دی لیکن انہیں بتایا گیا کہ سفارتخانے کا اسرائیل سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا  ایسا نہ صرف ہمارے لئے بلکہ اردن میں موجود غزہ کے دوسرے شہریوں کے لئے بھی سخت مشکل ہے جو واپس جانا چاہتے ہیں اور نہیں جاسکتے۔

بیٹی کی حالت رفح کے راستے سفر کی اجازت نہیں دیتی۔(فوٹو الشرق الاوسط)

2007 میں جب سے اسلامی عسکریت پسند گروپ حماس نے فلسطینی سیکیورٹی فورسز سے اقتدار حاصل کیا تھا اس وقت سے غزہ اسرائیلی و مصری ناکہ بندی کی زد میں ہے۔
اسرائیل میں ایک گروپ جو  فلسطینیوں کی نقل و حرکت کی حمایت کرتا ہے  کچھ خاندانوں کو  عام چینلز سے باہر اجازت نامے حاصل کرنے میں مدد فراہم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ غز ہ کے لوگوں کو وطن واپس آنے کی اجازت دینے کا بالآخر اسرائیل ہی ذمہ دار ہے۔
گروپ کی جانب سے ایک  بیان میں کہا گیا ہے"کسی کا  گھر واپس آنا  ایک بنیادی انسانی حق ہے جسے بہانے کرکے روکا نہیں جاسکتا ہے۔"

یہ رکاوٹ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مابین تنازع کی وجہ سے ہے۔(فوٹو الشرق الاوسط)

فلسطینیوں کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ اسرائیل کو مکمل طور پر نظرانداز کریں اور مصر کے ساتھ  رفح کی سرحدی چوکیعبور کر کے غزہ میں داخل ہوں لیک مصر صرف یہ راستہ عبوری طور پر ہی کھولتا ہے اور وہاں پہنچنے کے لئے قاہرہ کی پرواز لینی پڑتی ہے۔
الکردی کا کہنا ہے کہ "میری بیٹی کی حالت ہمیں رفح کے راستے سفر نہیں کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔  ہمیں قاہرہ سے بذریعہ سڑک اس چوکی تک جانا ہو گا اور اس میں گیارہ  گھنٹے لگ سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے فیصلے کا اثر عام فلسطینیوں کو دوسرے طریقوں سے پڑا ہے۔
اس تنازع نے فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے  اسرائیل کے  ذریعہ جمع کردہ ٹیکس اور کسٹمزکی منتقلی  روک دی ہے جس سے  وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی لانے پر مجبور ہیں۔

"گھر واپس آنا بنیادی انسانی حق ہے جسے بہانے کرکے روکا نہیں جاسکتا۔"(فوٹو عرب نیوز)

فلسطینی بچوں کی  پیدائش کی رجسٹریشن بھی متاثر ہوئی ہے۔ 30 ہزار سے زیادہ بچے بنیادی طور پر بے گھر ہو گئے ہیں۔
90 کے عشرے  میں طے پانے والے معاہدوں کے تحت  امن عمل کے دوران فلسطینی اتھارٹی برتھ سرٹیفکیٹ اور پاسپورٹ جاری کررہی ہے جب کہ اس عمل کے لیے اسرائیل کے ساتھ رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے ۔اب غیر رجسٹرڈ بچے کسی جگہ کا سفر کرنے سے قاصر ہیں۔
فلسطین کے نائب وزیر داخلہ یوسف  ہرب کا کہنا ہے کہ 19 مئی  سے  تعلقات منقطع ہونے کے بعد سے مغربی کنارے میں 33 ہزار سے زیادہ بچے پیدا ہوئے ہیں اور کم از کم 6 خاندان  بیرون ملک سفر کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ بغیر کاغذات کے  اپنے بچوں کو ساتھ نہیں لے جا سکتے۔
ایک فلسطینی ڈاکٹر محمد عیاش یوکرائن میں میڈیکل اسپیشلائزیشن  کرنے کے لئے 2019 کے موسم گرما میں غزہ  سے نکلے  تھے۔ کورس مکمل کرنے کے بعد  ان کا سٹوڈنٹ  ویزا ختم ہوگیا۔ وہ بھی اردن کے راستے واپس نہیں جا سکے کیونکہ  اسرائیلی اجازت نامہ نہیں مل سکا۔
وہ دبئی چلا گئے جہاں دو  ماہ سے زیادہ عرصے سے پھنسے ہوئے ہیں۔  سال سے زیادہ  ہو گیا ہے وہ  اپنے تین بچوں کو نہیں دیکھ سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ اعلی تربیت یافتہ معالج  ہونے کے باوجود   غزہ کی ناکہ بندی کے باعث  متحدہ عرب امارات  میں بیکار بیٹھا ہوں۔
انہوں نے کہا  "لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں واپس کیوں نہیں جا سکتا کیا یہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہے۔ میں انہیں کہتا ہوں کہ نہیں یہ اسرائیلی فوج اور اسرائیلی حکومت کی وجہ سے ہے۔"وہ مجھے اپنے گھر واپس نہیں آنے دیتے۔"
 

شیئر: