Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک اور بین

'ٹک ٹاک نہ بھی رہی تو لوگ کوئی نیا پلیٹ فارم ڈھونڈ لیں گے۔' فوٹو: ٹوئٹر
پی ٹی اے یعنی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ملک میں ٹک ٹاک کو بین کر دیا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے صرف اِکا دُکا ٹک ٹاک ویڈیوز کو ٹوئٹر پر دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ بظاہر اس میں کچھ سیکنڈز پر مشتمل کھیل تفریح والا مواد نظر آیا جس کے بنانے والے گھروں اور گلیوں میں موجود عام لوگ ہوتے ہیں۔  
پی ٹی اے کے مطابق اسے شکایات موصول ہوئیں کہ ٹک ٹاک قابل اعتراض مواد کے پھیلاؤ کا بھی سبب بن رہا ہے۔ یقیناً پی ٹی اے کی معلومات درست ہوں گی اور کچھ لوگ اس میں ملوث بھی ہوں گے۔ مگر کیا بین کرنا ہی واحد حل ہے؟ اور کیا ایک محددو گروہ کی سرگرمیوں پر لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کی تفریح اور اظہارِ رائے کو بند کرنا درست ہے؟ اور اگر اسی طرح ذرائع کو بند کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو کہاں جا کر رکے گا؟  
کسی بھی نظام کی اصلاح کرنا مشکل اور اس کو تالا لگانا آسان ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں دہشت گردی کا حل ڈبل سواری پر پابندی اور سکیورٹی کے لیے موبائل فون سگنل بند کرنا ہے۔ دھاتی تار پر کنٹرول کے بجائے بسنت پر پابندی اور ابھی تازہ تازہ ایک واقعے کے بعد ایک طبقہ عورتوں کے اکیلے باہر نکلنے پر پابندی لگانا چاہتا ہے۔ 
ہمارے حکومتی اداروں کو ’بین کلچر‘ کے بجائے ’تفتیش اور ریگولیشن کلچر‘ متعارف کرانا ہو گا- اگر ٹک ٹاک سمیت کسی ایپ پر کوئی خلافِ قانون سرگرمی ہو رہی ہے تو اس کا سراغ لگا کر ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو نا کہ پورا سسٹم ہی بند کردیا جائے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کہیں رکنے والا نہیں۔ 
 واٹس ایپ جو اب نہ صرف ہماری قوم بلکہ پوری دنیا کے لیے رابطے کی اولین ترجیح ہے اس پر بھی ہر طرح کا مواد شیئر ہو رہا ہے۔ اس منطق پر تو واٹس ایپ پر پہلے پابندی لگنی چاہیے۔ 
اسی طرح پی ٹی اے کی اپنی ناک کے نیچے انٹرنیٹ پر پراکسیز کے ذریعے تمام ویب سائٹس تک رسائی ہو رہی ہے تو شاید وہ دن دور نہیں جب پورے انٹرنیٹ پر ہی بین کا منصوبہ بن جائے۔

'کیا ایک محددو گروہ کی سرگرمیوں پر لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کی تفریح اور اظہارِ رائے کو بند کرنا درست ہے؟' فائل فوٹو: عرب نیوز

پی ٹی آئی کی حکومت کا ان ایشوز پر قول و فعل میں تضاد بھی نمایاں ہے۔ ایک طرف ’ڈیجیٹل پاکستان‘ کے بلند بانگ نعرے ہیں اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر پے در پے پابندیاں۔
ایک طرف سوشل میڈیا کی حمایت پر تشکر اور دوسری طرف تنقید کی صورت میں گالیوں کے طوفان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ خبروں کے مطابق ٹک ٹاک پر مہنگائی کے بارے میں عام لوگوں کی طرف سے بنائی جانے والی تنقیدی ویڈیوز بھی اس بین کی پس پردہ وجوہات میں شامل ہیں۔ 
اس پابندی کا فارن پالیسی والا زاویہ بھی قابل غور ہے کیونکہ ٹک ٹاک ایک چینی کمپنی کی ملکیت ہے۔ اس زاویے کی نمایاں نشاندہی پاکستان کے اقدام کے بعد امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل میں شائع ہونے والے مضمون میں بھی کی گئی۔ 

اس سے پہلے انڈیا ٹک ٹاک پر پابندی لگا چکا ہے جبکہ امریکہ پابندی کے قریب ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز

اس سے پہلے انڈیا ٹک ٹاک پر پابندی لگا چکا ہے جبکہ امریکہ پابندی کے قریب ہے۔ انڈیا نے سائبر سکیورٹی کے نام پر واضح سیاسی وجوہات کے تحت یہ قدم اٹھایا جبکہ امریکہ نے وجہ تو استعمال کرنے والوں کے ڈیٹا کو بنایا ہے مگر اصل میں محرک سیاسی ہے۔ اس سارے تناظر میں ایک دوست ملک کی طرف سے بین پر چینی کمپنی کی تشویش بھی یقینی ہے۔  
آخر میں پابندی کی وجہ سیاسی ہو یا معاشرتی یہ انتظامی اداروں اور حکومت کی کمزوری اور مسائل کے موزوں حل میں ناکامی کا اظہار ہے۔ ساتھ ہی ٹک ٹک کے لاکھوں استعمال کرنے والوں میں عدم مقبولیت اپنی جگہ۔

'پابندی کی وجہ سیاسی ہو یا معاشرتی یہ انتظامی اداروں اور حکومت کی کمزوری اور مسائل کے موزوں حل میں ناکامی کا اظہار ہے۔' فائل فوٹو: روئٹرز

دوسری طرف بظاہر ایک نان ایشو کو ایشو بھی بنایا گیا ہے۔ چونکہ اس کی وجہ بھی شکایات کو بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے دوسری سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے بھی یہ باعثِ تشویش ہو گا کہ کسی بھی وقت شکایات کی صورت میں بین کا خطرہ رہے گا۔ اب چونکہ سوشل میڈیا آمدنی کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے اس لیے اس کے اثرات بھی واضح ہیں۔  
موبائل ایپس کا سلسلہ رکنے والا نہیں۔ ٹیکنالوجی کی رفتار تیز سے تیز ہوتی جا رہی ہے۔ ایک کے بعد ایک نئی اور پرکشش ایپ آرہی ہے۔ ٹک ٹاک نہ بھی رہی تو لوگ کوئی نیا پلیٹ فارم ڈھونڈ لیں گے۔ اب تو ضرورت ہے کہ پابندی کے بجائے اصلاح ہو اور اس کے ساتھ ساتھ ہم اس میدان سے معاشی فائدہ ڈھونڈیں۔ بین ہمارے مسائل کا حل نہیں خود ایک مسئلہ ہے۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: