Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئی جی سندھ مشتاق مہر کون ہیں؟

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے پولیس کے اعلیٰ افسران سے ملاقات کر کے مسائل کے حل کی یقین دہائی کرائی۔ فوٹو: سندھ حکومت
مسلم لیگ ن کے رہنما کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر کے خلاف ایف آئی آر کے معاملے پر  دباؤ کے بعد منگل کو سندھ میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ مشتاق مہر اور درجنوں سینیئر افسران کی طرف سے ایک ساتھ چھٹی کی درخواستیں دی گئیں جو پولیس کی تاریخ میں ایک منفرد واقعہ ہے۔
تاہم اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے دفاعی تجزیہ کاروں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ کہانی میں جھول ہے اور اگر سندھ کے آئی جی کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تھا تو انہیں محض چھٹی کی درخواست نہیں بلکہ استعفی دے دینا چاہیے تھا۔
اس حوالے سے اردو نیوز نے پولیس کے تین سابق انسپکٹر جنرلز سے بات کی کہ پولیس چیف کے پاس اس طرح کی صورتحال میں کیا آپشنز ہوتے ہیں؟

چھٹی پر جانا سب سے نرم احتجاج ہے

سابق آئی جی طاہر عالم کا کہنا تھا کہ اگر کسی پولیس چیف کے ساتھ زیادتی کی جائے تو اس کے پاس متعدد آپشنز ہوتے ہیں جن میں اپنے سینیئرز کو معاملے سے آگاہ کرنا، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں شکایت کرنا یا عدالت جانا بھی شامل ہے۔  
اس کے علاوہ وہ استعفی بھی دے سکتا ہے اور آئی جی کے عہدے پر کام کرنے سے معذرت کرکے آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) بھی لگ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چھٹی پر چلے جانا سب سے کمزور راستہ ہے جس کا انتخاب آئی جی سندھ نے کیا۔
تاہم ایک اور ریٹائرڈ آئی جی افضل شگری اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ آئی جی کو استعفی دینا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک پولیس آفیسر نے زندگی بھر سروس کر کے اپنا کیریئر بنایا ہوتا ہے اس کو استعفی دے کر پینشن اور دوسرے سروس بینیفٹ سے محروم نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کو اپنی ٹرانسفر کی درخواست دینی چاہیے۔ اس کے علاوہ وقت سے قبل ریٹائرمنٹ بھی لی جا سکتی ہے۔

مشتاق مہر سندھ پولیس کے سربراہ بننے سے قبل کراچی پولیس کے چیف بھی رہ چکے ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

افضل شگری کا کہنا تھا کہ ان کی سروس کی دوران دو بار ان کا حکومت سے اختلاف رائے پیدا ہوا اور دونوں بار انہوں نے حکومت کو خط لکھ کر کام جاری رکھنے سے معذرت کی اور اپنا ٹرانسفر کہیں اور کر دینے کی درخواست کی۔
میری خوش قسمتی تھی کہ دونوں بار حکومت نے مجھے او ایس ڈی بنانے کے بجائے میری مرضی کی پوسٹنگ دے دی تھی، تاہم ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکومتیں اختلاف رائے کرنے والے افسران کو مشکل اسائنمنٹ دیتی ہیں یا ان کے خلاف انکوائری وغیرہ کرواتی ہیں‘۔

استعفی کی نوبت ہی نہیں آنے دینی چاہیے

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق آئی جی خواجہ خالد فاروق کا کہنا تھا کہ ایک پولیس افسر کو غیر قانونی کام سے صاف انکار کر دینا چاہیے۔ ہماری سروس کے دوران مختلف طرح کے پریشر تو ڈالے جاتے ہیں مگر ہمیں ان کا مقابلہ کرتے ہوئے غیر قانونی احکامات نہیں ماننے چاہئیں۔ اگر کوئی زبردستی کرے تو ہر طریقے سے اپنا دفاع کرنا چاہیے۔ ایسے افراد کے خلاف کیس رجسٹر کروانا چاہیے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف مزارِ قائد پر نعرے لگانے کا مقدمہ درج کیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

خواجہ خالد فاروق کے مطابق استعفے کی نوبت ہی نہیں آنی چاہیے۔ ’ہم نے بھی سروس کے دوران کافی مواقع پر پریشر کا سامنا کیا، تاہم کبھی بھی دباؤ میں آکر غلط فیصلہ نہیں کیا بلکہ لکھ کر اختلاف کر دیا۔ کیونکہ دباؤ کے تحت غلط کام کرنے والا بھی ذمہ داری سے بری نہیں ہو سکتا اور مس کنڈکٹ کا مرتکب ضرور ٹھہرتا ہےـ
یاد رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے کراچی واقعے کا نوٹس لیے جانے کے بعد آئی جی سندھ  نے چھٹی پر جانے کا فیصلہ موخر کر دیا ہے اور دیگر پولیس افسران کو بھی فیصلہ موخر کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سندھ پولیس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’18 اور 19 اکتوبر کی درمیانی شب پیش آنے والا افسوسناک وا قعہ سندھ پولیس کے تمام رینکس کے لیے دلی رنج اور ناراضی کا باعث بنا‘۔
بیان کے مطابق ’اس واقعے کے بعد آئی جی سندھ نے چھٹی پر جانے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں دیگر تمام رینک کے افسران نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ بھی پولیس کی تضحیک کے خلاف احتجاجاً چھٹی کے لیے درخواست دیں گے، یہ تکلیف دہ اور افسوسناک ردعمل کوئی اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی ردعمل تھا‘۔
بیان میں کہا گیا کہ ’محکمے کے ہر ایک فرد کو بے عزتی کا شدید احساس ہوا تاہم یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ آرمی چیف نے ہماری تکالیف کو محسوس کیا اور فوری طور پر واقعے کا نوٹس لے کر تحقیقات کا حکم دیا اس اقدام پر ان کے شکر گزار ہیں۔‘

سندھ کے سابق آئی جی کلیم امام کے ساتھ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کا اختلاف ہوا تھا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

آئی جی سندھ مشتاق مہر کون ہیں؟

پولیس سروس آف پاکستان میں کمیشن پانے والے مشتاق مہر اس سے پہلے بطور ایڈیشنل آئی جی تین سال تک کراچی پولیس کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
انہیں جولائی 2015 میں ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو کی جگہ کراچی پولیس کا چیف تعینات کیا گیا تھا۔
بعد ازاں جولائی 2017 میں ان کا تبادلہ ٹریفک پولیس کے سربراہ کے طور پر کیا گیا تھا لیکن حکومت سندھ نے ایک مہینے بعد انہیں دوبارہ کراچی پولیس کا سربراہ تعینات کر دیا تھا۔
اس سال فروری میں سندھ اور وفاق میں آئی جی کی تعیناتی کے حوالے سے مہینوں جاری رہنے والے تنازعے کے بعد انہیں کلیم امام کی جگہ آئی جی تعینات کیا گیا تھا۔ اس سے قبل مشتاق مہر پاکستان ریلوے پولیس میں انسپکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

آئی جی سندھ کا معاملہ وزیراعظم اور گورنر سندھ کی ملاقات میں بھی زیرِ بحث آیا۔ فوٹو: اے پی پی

ان کی بطور آئی جی تعیناتی کے وقت اس وقت کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’وفاقی کابینہ نے مشتاق مہر کو آئی جی سندھ تعینات کرنے کی منظوری دے دی۔ نئے آئی جی کی تعیناتی سندھ حکومت کے مطالبے اور گورنر کی مشاورت سے کی گئی ہے۔ امید کرتے ہیں نئے آئی جی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سندھ میں امن وامان کے قیام اور جرائم کی بیخ کنی کو یقینی بنائیں گے۔
 یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مشتاق مہر پہلے بھی تنازعات کا شکار رہے ہیں اور انہیں سندھ ہائی کورٹ نے سیاسی پشت پناہی کا الزام ثابت ہونے کی وجہ سے کراچی پولیس چیف کے عہدے سے ہٹایا تھا۔ جب اگست 2018 میں انہیں سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر عہدے سے ہٹایا گیا تو ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سندھ کی بااثر سیاسی شخصیات کی ایما پر منی لانڈرنگ کیس کے گواہان کو پولیس کے ذریعے وعدہ معاف گواہ بننے سے روکنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔
بطور کراچی پولیس چیف تعیناتی کے دوران بھی مشتاق مہر کو پانچ ہفتے کے لیے عہدے سے ہٹایا گیا تھا کیوں کہ ان کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کے الزامات سامنے آ رہے تھے، تاہم پانچ ہفتے بعد انہیں دوبارہ عہدے پر بحال کر دیا گیا تھا۔
مشتاق مہر سندھ پولیس کے ساٹھویں سربراہ ہیں۔ اپنی سروس کے دوران وہ اے آئی جی ٹریفک سندھ، ایس ایس پی دادو، ڈی آئی جی کرائم، ڈی آئی جی سپیشل برانچ، اور ڈی آئی جی کاؤنٹر ٹیررازم کے علاوہ اقوام متحدہ کی امن فوج میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: