Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں شیر بھینسوں سے بھی سستے کیوں؟

حال ہی میں محکمہ جنگلی حیات نے 14شیر فروخت کیے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
آپ نے بالکل صحیح پڑھا۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں کچھ ایسی صورت حال سامنے آئی ہے جہاں ایک شیر کی قیمت بھینس سے بھی کم لگائی گئی ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ 15 اکتوبر کو محکمہ جنگلی حیات نے 14 شیر فروخت کیے ہیں جن میں سے ہر شیر ڈیڑھ لاکھ روپے کا بیچا گیا ہے۔ ان میں سے چار شیر لاہور کے چڑیا گھر کی ملکیت تھے۔
خیال رہے کہ پنجاب میں ایک اوسط درجے کی بھینس کی قیمت دو لاکھ سے زائد ہے۔
لاہور چڑیا گھر کے ڈائریکٹر شفقت علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے پاس شیر اضافی تھے جو فروخت کیے گئے۔
’ہمارے پاس اصل میں آٹھ شیر اضافی تھے اور ہم نے محکمہ جنگلی حیات کو یہ بتا رکھا تھا اور اب ہمیں کہا گیا کہ ان میں سے چار کا سودا گوجرانوالہ کے کنٹونمنٹ بورڈ سے کیا گیا اور ہم نے چھ لاکھ کے عوض یہ شیر ان کو دے دیے ہیں۔‘
محکمہ جنگلی حیات، چڑیا گھر اور سفاری پارک کے مشترکہ 14 شیر فروخت کیے گئے ہیں۔ 
شیر اتنے سستے کیوں؟
اس سوال کے جواب میں شفقت علی ہنس دیے ’یہ آپ میڈیا والوں کا انداز ہے کہ بات کو پکڑتے ہیں کہ اس کا مطلب ہی کچھ اور ہو جاتا ہے۔ میں آپ کو سمجھاتا ہوں کہ یہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ جیسے میں ایک چڑیا گھر کا سربراہ ہوں تو میری تمام جانوروں پر نظر ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک جانوروں کی اقسام (سپیشیز) اہم ہوتی ہیں ایک ہی نسل کے زیادہ جانوروں کی نہیں اور دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے۔‘
شفقت علی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’ایک شیر پالنا بہت مشکل ہے اس کی خوراک اور رہن سہن کا خیال رکھنا ایک انتہائی مہنگا کام ہے۔ اس لیے ہم ضرورت سے زیادہ شیر نہیں رکھتے وہ بوجھ ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کہ ہم جانور بیچنے کے لیے یہاں بیٹھے ہیں۔‘
محکمہ جنگلی حیات جو صوبے میں جنگلی جانوروں کی تعداد کا محافظ ہے اس نے ایک طریقہ کار متعین کر رکھا ہے۔ سب سے پہلے دیکھا جاتا ہے کہ کسی دوسرے چڑیا گھر کو اس جانور کی ضرورت تو نہیں۔

محکمہ جنگلی حیات، چڑیا گھر اور سفاری پارک کے مشترکہ چودہ شیر فروخت کیے گئے (فوٹو: اردو نیوز)

شفقت علی نے مزید بتایا کہ اگر اس جانور کی کمی کسی دوسری جگہ پر ہو اس کے بدلے میں کسی دوسرے جانور کا ان سے سودا کیا جاتا ہے۔ اگر ایسی صورت حال نہ ہو تو پھر پرائیویٹ سیکٹر کا رخ کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ کسی ایسی ہاؤسنگ سوسائٹی کو بیچے جائیں جہاں عوام کی تفریح کے لیے چھوٹے چڑیا گھر بنائے گئے ہیں۔ اس کے بعد آخری درجے میں کسی پرائیوٹ فارم کو اضافی جانور فروخت کیے جاتے ہیں۔
’جہاں تک سستے ہونے کا تعلق ہے تو اس کے لیے میں آپ کو ایک لطیفہ سناتا ہوں۔ ہمارے محکمے کے ایک نئے ڈی جی صاحب آئے تو اس وقت ہمارے پاس سفاری پارک میں چودہ اضافی شیر تھے میں نے مشورہ دیا کہ ان کو بیچ دیتے ہیں۔ ان کو آئیڈیا پسند آیا لیکن ڈیڑھ لاکھ روپے کی رقم سے وہ چونک گئے کہ اس کو بڑھاؤ۔ پھر میں نے ان کو بتایا کہ ان اضافی شیروں کو رکھنے کے لیے سالانہ ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ آئے گا یہ کوئی مفت بھی لے جائے تو دے دیں۔ جس پر وہ ہنس پڑے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک شیر کو ایک دن میں سات سے دس کلو گوشت ڈالنا پڑتا ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں۔ ویسے بھی قیمت کا تعین ایک محکمانہ پالیسی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اس سے بھی کم قیمت پر شیر بیچے جاتے تھے۔‘
پنجاب میں شیروں کا کاروبار
عدنان اعوان لاہور میں شیروں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے ہیں اور بیدیاں روڈ پر ان کا اپنا بریڈنگ فارم ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’شیروں کے سرکاری ریٹ بہت کم ہیں اور اس کے خلاف میں نے ہائیکورٹ کے ملتان بینچ میں ایک درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔ اوپن مارکیٹ میں ایک شیر کی جوڑی 25 سے 45 لاکھ روپے کی بکتی ہے۔ اور لوگ خریدتے ہیں۔ سرکاری ریٹ پر پرائیوٹ لوگ خرید لیتے ہیں اور پھر بریڈنگ کے لیے استعمال کر کے مہنگے داموں بیچتے ہیں۔‘
عثمان خان لاہور کے ایک اور شہری ہیں جنہوں نے اس مرتبہ تو نہیں بلکہ اس سے پہلے محکمہ جنگلی حیات سے سستی قیمت میں شیر خریدے تھے۔

حکام نے لاہور ریجن میں کل 32 بریڈنگ فارمز کے لائسنس دیے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے بتایا کہ ’شیر تو سستے ملتے ہیں لیکن وہ کوئی اتنی اچھی حالت میں نہیں ہوتے۔ کوئی نہ کوئی نقص ان میں ضرور ہوتا ہے البتہ اگر آپ کی قسمت اچھی ہے تو پھر بریڈنگ کے لیے آپ کے کام آ جاتے ہیں اور شیروں کے بچے مہنگے فروخت ہوتے ہیں۔‘
شیر رکھنے کے لیے کس قسم کا اجازت نامہ درکار ہوتا ہے؟
اس حوالے محکمہ جنگلی حیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر انور مان نے بتایا کہ ’ویسے تو علیحدہ سے شیر رکھنے کا لائسنس محکمہ جنگلی حیات جاری نہیں کرتا البتہ مجموعی طور پر جنگلی حیات کے لیے ایک لائسنس ہوتا ہے جس میں شیر نہیں ہوتا البتہ دیگر جانور جیسے مور، ہرن اور نیل گائے وغیرہ رکھے جا سکتے ہیں۔‘
شیر یا اس قبیل کے جانوروں کے لیے ضلعی حکومت این او سی جاری کرتی ہے کیونکہ براہ راست یہ معاملہ لوگوں کی حفاظت سے متعلق ہوتا ہے۔ ہاں جب این او سی جاری ہو جاتا ہے تو ہمارا محکمہ رکھے گئے شیروں کے لیے ایس او پیز پر عمل کرواتا ہے۔
انور مان نے بتایا کہ لاہور ریجن میں کل 32 بریڈنگ فارمز کے لائسنس دیے گئے ہیں جہاں لوگ مختلف انواع کی جنگلی حیات پالتے ہیں۔ ان میں سے کئی فارم شیر بھی پالتے ہیں۔

کاروباری افراد کے علاوہ عام لوگوں نے بھی گھروں میں شیر پال رکھے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

عدنان اعوان کے مطابق صرف لاہور میں دس کے قریب ایسے فارم ہیں جہاں شیر پالے جاتے ہیں اور چڑیا گھروں کے علاوہ شہر میں ان کی تعداد سو سے زائد ہے۔
کارباری افراد کے علاوہ عام لوگوں نے بھی گھروں میں شیر پال رکھے ہیں تاہم وہ اس کے لیے ضلعی حکومت سے اجازت نامہ لیتے ہیں۔
عدنان نے بتایا کہ ’عام طور پر لوگ بچے خریدتے ہیں اور ہم ان کو بتاتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک سال تک انہیں رکھ سکتے ہیں۔ اکثر لوگ سال کے بعد ہمیں واپس بیچ جاتے ہیں کیونکہ بڑے شیر کو گھروں میں رکھنے کا انتظام نہیں ہوتا۔‘

شیئر: