Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گاڑیوں کا دھواں سموگ کی وجہ لیکن سدباب کانظام نہیں

رپورٹ کے مطابق سموگ کی سب سے بڑی وجہ گاڑیوں کے دھویں کو قرار دیا گیا (فوٹو اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں موسم خزاں شروع ہوتے ہی ایک دفعہ پھر سموگ کا راج ہے۔
حالیہ سالوں میں فضائی آلودگی میں ہوش ربا اضافے کی وجہ پر ہمیشہ تنازعہ رہا۔ مقامی میڈیا سموگ کی ایک بڑی وجہ دھان کی فصل کی کٹائی کے بعد اس کے فضلے کو جلائے جانے کی وجہ قرار دیتا ہے تو کئی بار اینٹوں کے بھٹوں کا دھواں اس کی وجہ قرار پاتی ہے۔
پنجاب حکومت نے ان خبروں کے باعث فصلوں کی باقیات کو جلانے پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے اسی طرح سات نومبر سے اینٹوں کے بھٹوں کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔

 

اس کے باوجود سموگ ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے۔ پنجاب کے محکمہ ماحولیات نے وزیر اعلی عثمان بزدار کو حال ہی میں فضائی آلودگی کی صورت حال کی رپورٹ پیش کی ہے۔ اردو نیوز کو حاصل ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق سموگ کی سب سے بڑی وجہ گاڑیوں کے دھویں کو قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مندرجات کے مطابق ’فضائی آلودگی میں 43 فی صد حصہ گاڑیوں کے دھویں کی ہے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر بیس فیصد صنعتی دھواں اس آلودگی کی وجہ بن رہا ہے۔‘
رپورٹ میں فصلوں کی باقیات کے جلائے جانے کو دو انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ’اکتوبر کے مہینے میں باقیات کے جلائے جانے نے 27 فیصد تک آلودگی میں اضافہ کیا لیکن اب یہ حصہ داری 7 فیصد ہے۔‘
 محکمہ ماحولیات پنجاب کے تحقیقاتی شعبے کے سربراہ فاروق عالم  نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’یہ درست ہے کہ موجودہ فضائی آلودگی میں سب سے بڑا حصہ گاڑیوں کے دھویں کا ہے۔ لیکن اب سموگ پر بحث کو کسی ایک فیکٹر کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ ایک سنجیدہ ماحولیاتی مسئلہ ہے جو مجموعی طور پر ماحول میں بگاڑ کی وجہ سے پیدا ہو چکا ہے اور یہ بین الاقوامی ہے۔ دو ہزار پندرہ سے پہلے سموگ کے لفظ سے بھی لوگ نا آشنا تھا۔ گاڑیاں بھی ایسے ہی تھیں، فصلوں کی باقیات  بھی صدیوں سے جلائی جاتیں ہیں۔ فیکٹریاں بھی پہلے زیاد تھیں بلکہ اب کم ہیں۔‘

 محکمہ ماحولیات کے ایک افسر کے مطابق شام یا صبح کے وقت وسطی پنجاب کی فضا میں تمام آلودگی معلق ہو جاتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

فاروق عالم نے بتایا کہ ’اس وقت ماحول میں خرابی پیدا ہو گئی ہے۔ شام کے وقت یا صبح کے وقت وسطی پنجاب کی فضا میں تمام آلودگی معلق ہو جاتی ہے۔ اور یہی سموگ ہے۔ اور یہ حالیہ پانچ سالوں میں پیدا ہونے والی صورت حال ہے۔ البتہ اب اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے جس میں سارا سال چلنے والی گاڑی اور حتی کے ان میں جلائے جانے والے فیول اور درختوں کی تعداد سب چیزوں کو ایک فریم میں دیکھنا ہو گا۔‘

گاڑیوں کا دھواں ماپنے کا نظام نہیں

محکمہ ماحولیات کے ہی ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’سموگ میں سب سے زیادہ حصہ داری رکھنے والے فیکٹر یعنی ٹریفک سے پیدا ہونے والی آلودگی ماپنے کا مربوط نظام ہمارے پاس نہیں ہے۔ دنیا بھر میں مستعمل این ڈی آئی آر نامی وہیکل انالائزر ہمارے پاس نہیں ہے۔ ‘
ان کے مطابق ’یہ ٹیکنالوجی انفرا ریڈ کے ذریعے کام کرتی ہے اور اس سے چلتی گاڑیوں سے خارج ہونے والے فضلات کی درست جانچ کی جا سکتی ہے۔ اور وہ پانچ خطرناک اجزا جو فضا میں شامل ہوتے ہیں جن میں ہائیڈرو کاربن ، بلیک کاربن  اور کاربن مونو آکسائیڈ شامل ہیں کو باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ نظام محکمہ ٹرانسپورٹ کے پاس ہونا چاہیے جیسا کہ پوری دنیا میں ہوتا ہے لیکن ہمارے پاس نہیں ہے۔‘

پنجاب حکومت نے پالیسی کے طور پر سموگ کر پچھلے سال ہی آفت قرار دے دیا تھا (فوٹو اے ایف پی)

تاہم محکمہ ماحولیات کے ترجمان ساجد بشیر نے بتایا کہ ’انفرادی انالائزر محکمہ کے پاس موجود ہیں جن میں الگ الگ اجزا کے لئے الگ آلات ہوتے ہیں اور محکمہ ٹرانسپورٹ کے ساتھ مل کر ہم گاڑیوں کی انسپکشن بھی کرتے ہیں۔ جہاں بھی انہیں ہماری مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ محکمہ اپنے وسائل کے مطابق اپنا کام احسن طریقے سے کر رہا ہے۔
پنجاب حکومت نے پالیسی کے طور پر سموگ کر پچھلے سال ہی آفت قرار دے دیا تھا۔ اور قدرتی آفتوں کے قائم ریلیف کمشنر آفس بھی اب سموگ کی صورت حال پر اپنے طور پر اقدامات کر رہا ہے۔
 ریلیف کمشنر پنجاب بابر حیات تارڑ کے مطابق ایک مہینے کے دوران صنعتوں  اور ٹرانسپورٹرز کو اڑھائی کروڑ روپے کے جرمانے کئے گئے ہیں۔ جبکہ کہ پانچ سو کے قریب صنعتی یونٹ بند کئے گئے ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ ایسی اڑھائی ہزار سے زائد صنعتوں کو مارک کیا گیا ہے جن کو ماحولیات کے محکمہ نے مضر صحت مادے فضا میں چھوڑنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ’ہم بڑی باریک بینی سے ان کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور ان کو اس بات پر لا رہے ہیں کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کریں تا کہ مضر صحت فضلات میں کمی واقع ہو۔‘

شیئر: