امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارے کا الحاق کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ بیان اُن اسرائیلی دائیں بازو کے سیاستدانوں کے مطالبات کو مسترد کرتا ہے جو اس علاقے پر خودمختاری قائم کر کے ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی اُمیدوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
امریکہ غزہ جنگ کو ابھی اسی وقت ختم کر سکتا ہے، صدر ٹرمپNode ID: 894970
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کو بعض اتحادیوں کی جانب سے مغربی کنارے کو ضم کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے جس پر عرب رہنماؤں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان (رہنماؤں) میں سے کچھ نے منگل کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر صدر ٹرمپ سے ملاقات بھی کی۔
امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’میں اسرائیل کو مغربی کنارے لا الحاق کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ ایسا نہیں ہونے دوں گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اب بہت ہو چکا ہے۔ اب رُکنے کا وقت ہے۔‘
فرانس، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال اُن ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے حالیہ دنوں میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے، تاکہ دو ریاستی حل کے امکان کو زندہ رکھا جا سکے۔ اسرائیل نے ان اقدامات کی مذمت کی ہے۔
صدر ٹرمپ کا یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب بنیامین نیتن یاہو نیویارک پہنچ رہے تھے جہاں وہ جمعے کو اقوامِ متحدہ سے خطاب کریں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کا کہنا ہے کہ ’وزیراعظم، ٹرمپ کے بیان پر ردعمل وطن واپسی کے بعد دیں گے۔‘

ٹرمپ، جو اسرائیل کے سب سے مضبوط اتحادی کے طور پر جانے جاتے ہیں، نے کہا کہ انہوں نے جمعرات کو مشرق وسطیٰ کے ممالک کے نمائندوں اور بنیامین نیتن یاہو سے بات کی ہے اور غزہ کے بارے میں ایک معاہدہ جلد ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ یرغمالیوں کو واپس لایا جائے، لاشیں واپس لائی جائیں اور ہم اس خطے میں امن چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہماری بہت اچھی بات چیت ہوئی ہے۔
اسرائیلی بستیوں کی تعداد اور حجم میں اضافہ اُس وقت سے ہوا ہے جب اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں مغربی کنارے پر قبضہ کیا تھا۔ یہ بستیاں علاقے کے اندر گہرائی تک پھیلی ہوئی ہیں، اور ان کے ساتھ سڑکوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کا ایک ایسا نظام موجود ہے جو اسرائیلی کنٹرول میں ہے، جو مزید زمین کو ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے۔
اسرائیلی آبادکاری منصوبہ جسے ’ای ون پراجیکٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے، کی اگست میں حتمی منظوری دی گئی۔
یہ (منصوبہ) اُس زمین کے راستے سے گزرے گا جسے فلسطینی اپنی ریاست کے لیے چاہتے ہیں۔

اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے اُس وقت کہا تھا کہ فلسطینی ریاست کو مذاکرات کی میز سے ہٹایا جا رہا ہے۔
عرب اور مسلم ممالک نے رواں ہفتے کے اوائل میں ایک ملاقات میں صدر ٹرمپ کو خبردار کیا تھا کہ مغربی کنارے کے کسی بھی ممکنہ انضمام کے سنگین نتائج ہوں گے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کے مطابق ’صدر ٹرمپ اس پیغام کو بخوبی سمجھتے ہیں۔‘
تقریباً 7 لاکھ اسرائیلی آبادکار مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں 27 لاکھ فلسطینیوں کے درمیان رہتے ہیں۔ اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے لیکن اس اقدام کو زیادہ تر ممالک نے تسلیم نہیں کیا۔
اسرائیل مغربی کنارے پر اپنا کنٹرول چھوڑنے سے انکار کرتا ہے اور اس مؤقف کو حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد بعد مزید تقویت ملی۔
عالمی برادری کی اکثریت مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاریوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی تصور کرتی ہے۔