سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مسائل ناقابلِ حل نہیں ہیں اور اگر سنجیدہ سیاسی عزم ہو تو مذاکراتی عمل سے حل کیے جا سکتے ہیں۔
عرب نیوز سے گفتگو میں سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’ظاہر ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تمام تصفیہ طلب مسائل کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک مذاکراتی عمل ہونا ضروری ہے۔ ہم ان مسائل کو ناقابلِ حل نہیں سمجھتے۔‘
مزید پڑھیں
-
امریکہ غزہ جنگ کو ابھی اسی وقت ختم کر سکتا ہے، صدر ٹرمپNode ID: 894970
انہوں نے کہا کہ ’اگر سنجیدہ ارادہ ہے اور اور ہمیں فلسطینی اتھارٹی سے معلوم ہوا ہے کہ وہ تیار ہیں اور ان مسائل کو ایک معقول اور عملی طریقے سے حل کرنے کے لیے آئیں گے، تو ہم نسبتاً کم وقت میں ایک فلسطینی ریاست قائم کر سکتے ہیں جو نہ صرف پائیدار اور قابلِ عمل ہو بلکہ اسرائیل میں اپنے ہمسائیوں کے ساتھ ہم آہنگی سے رہ سکے۔‘
وہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔
اس سے قبل مسئلہ فلسطین کے پُرامن حل اور دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے ایک اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس کی مشترکہ صدارت سعودی عرب اور فرانس نے کی تھی۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اُمید ظاہر کی کہ دو ریاستی حل جلد ہی پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے اور اسے خطے میں پائیدار امن و استحکام کا واحد قابلِ عمل راستہ قرار دیا۔
’کیا یہ مستقبل قریب میں ممکن ہے؟ مجھے پوری اُمید ہے کہ ایسا ہو کیونکہ یہی واحد راستہ ہے جس کے زریعے ہم سب اس خطے میں دیرپا امن، سلامتی اور استحکام کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مستقبل کی فلسطینی ریاست کی بنیادیں بین الاقوامی قانون کے تحت پہلے ہی قائم ہیں اور پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ حتمی حیثیت کے مذاکرات نیک نیتی اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھائے جائیں۔‘
سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’بنیادی عناصر موجود ہیں۔ اسرائیل کے قیام کے لیے منظور شدہ اقوام متحدہ کی بنیادی قراردادوں میں یہ بات واضح ہے۔ اسی طرح ریاست فلسطین کی بنیاد کے بارے میں بھی ایک واضح سمجھ بوجھ پائی جاتی ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق 1967 کی سرحدیں ہی فلسطین کی ریاست کی سرحدیں ہیں۔‘
غزہ کی صورتحال پر شہزادہ فیصل بن فرحان نے بین الاقوامی ردعمل اور انسانی امداد کی وسعت پر زور دیا تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ تعمیرِ نو ایک عارضی حل نہیں بلکہ طویل مدتی حل کا حصہ ہونا چاہیے۔
’میرے خیال میں غزہ کی ہنگامی مدد کے لیے وسیع پیمانے پر امداد کے جذبے سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے گہرا عزم پایا جاتا ہے۔ لیکن میں یہ بات بالکل واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جب ہم، اُمید ہے کہ جلد، جنگ بندی کی طرف جائیں گے تو یہ صورت حال عارضی نہ ہو۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ ناقابلِ قبول ہے کہ ہم بین الاقوامی برادری کے سامنے یہ مطالبہ کرنے کے لیے آئیں کہ وہ غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے ایک ہو جائیں، جب کہ اسے اسرائیل نے تباہ کیا ہو اور پھر زمینی صورتحال ایسی ہو کہ یہ سب کچھ دوبارہ رونما ہو سکے۔‘
سعودی وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ تعمیرِ نو کی کوششیں پائیدار ہونی چاہییں اور براہِ راست سیاسی حل سے منسلک ہوں۔
’میں سمجھتا ہوں کہ غزہ کی فوری مدد کے ساتھ ساتھ یہ انتہائی ضروری ہے کہ تعمیرِ نو کو پائیدار بنایا جائے، تاکہ ہم یہ کام ایک بار اور ہمیشہ کے لیے مکمل کر سکیں۔ اور یہاں ایک بار پھر فلسطینی ریاست کے ذریعے فلسطین کی حیثیت کے بارے میں حتمی معاہدے کی ضرورت ہے۔‘
شہزادہ فیصل بن فرحان نے نیویارک میں صحافیوں کو بتایا کہ عرب اور مسلم ممالک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مغربی کنارے کے اسرائیلی انضمام کے خطرات سے آگاہ کیا ہے۔
’کچھ ممالک نے صدر کو واضح طور پر آگاہ کیا کہ مغربی کنارے میں کسی بھی قسم کے انضمام کا خطرہ صرف غزہ میں امن کے امکان کے لیے نہیں بلکہ کسی بھی پائیدار امن کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ صدر ٹرمپ عرب اور مسلم ممالک کے موقف کو سمجھتے ہیں۔‘