Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی پولیس کا اہلکار ڈکیتیوں میں ملوث، ’احتساب کے عمل کو مضبوط بنانا ناگزیر‘

پولیس ریکارڈ کے مطابق اس برس صوبے کے مختلف تھانوں میں پولیس افسروں اور اہل کاروں کے خلاف 291 مقدمات درج ہوئے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں 22 ستمبر کو ہونے والے پولیس مقابلے میں زخمی ہونے والا ملزم کوئی عام جرائم پیشہ شخص نہیں تھا بلکہ وہ کراچی پولیس کا سابق انٹیلیجنس اہل کار تھا۔
پولیس کی ایف آئی آر اور ترجمان ضلع جنوبی پولیس کی جانب سے اردو نیوز کو فراہم کی گئی تفصیلات کے مطابق ’زخمی ملزم سہیل ڈسٹرکٹ ساؤتھ تھانہ ڈیفنس میں انٹیلیجنس یونٹ کا اہلکار رہ چکا ہے اور ان دنوں حوالدار بننے کے لیے سعید آباد ٹریننگ سینٹر میں کورس کر رہا تھا۔‘
یہ امر باعث حیرت ہے کہ وہ نائٹ پاس لے کر ٹریننگ سینٹر سے نکلتا اور اس دوران تھانہ ڈیفنس کی حدود میں ڈکیتیوں کی وارداتیں کرتا۔
پولیس ترجمان نے بتایا کہ ’سہیل کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا اور اس کے قبضے سے اسلحہ، متعدد قیمتی موبائل فون، نقد رقم اور شناختی دستاویزات برآمد ہوئیں۔ ملزم کے دیگر ساتھی موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تاہم پولیس تفتیش شروع کر رہی ہے۔

پولیس اہل کاروں کی جرائم میں شمولیت 

یہ واقعہ نیا ضرور ہے لیکن حیران کن نہیں۔ کراچی پولیس کے ماضی پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پولیس کے اپنے اہل کار ہی مختلف جرائم میں ملوث رہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل پولیس اہل کاروں کے اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، سٹریٹ کرائم اور ڈکیتیوں میں ملوث ہونے کے انکشافات نے شہریوں کو حیران کر دیا تھا۔
سینیئر کرائم رپورٹر ثاقب صغیر کے مطابق رواں برس کے دوران سندھ پولیس کے اہل کاروں کے خلاف بڑی تعداد میں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق اس برس صوبے کے مختلف تھانوں میں پولیس افسروں اور اہل کاروں کے خلاف 291 مقدمات درج ہوئے جن میں 336 اہل کار نامزد کیے گئے۔
ان مقدمات میں اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، جعلی پولیس مقابلے اور سمگلروں کی سہولت کاری جیسے سنگین الزامات شامل ہیں۔
ثاقب صغیر نے بتایا کہ ’ان مقدمات میں شامل اہل کاروں میں سے اب تک 174 کو گرفتار، 249 کو معطل اور 22 کو نوکری سے برطرف کیا گیا۔ 12 اہل کار تاحال مفرور ہیں جبکہ 149 ضمانت پر رہا ہیں۔

پولیس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف کراچی کے ایسٹ زون میں ہی 37، ویسٹ زون میں آٹھ اور ساؤتھ زون میں 19 اہل کار مختلف جرائم میں نامزد ہوئے۔
دیگر اضلاع جیسے حیدرآباد، میرپور خاص، شہید بے نظیر آباد، سکھر اور لاڑکانہ میں بھی بیسیوں پولیس اہل کاروں کو معطل یا گرفتار کیا گیا۔
موجودہ صورتِ حال میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آیا پولیس واقعی شہریوں کی حفاظت کے لیے ہے یا پھر یہ ایک ایسا ادارہ بن چکا ہے جس کے کچھ اہل کار قانون کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ادارے کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے بلکہ عوام میں یہ خوف بھی بڑھ رہا ہے کہ پولیس اہل کار وردی کی آڑ میں کسی بھی جرم کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔

’یہ ادارے کے اندرونی نظام کی کمزوری ظاہر کرتا ہے‘

قانونی ماہر اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ کرمنالوجی کی سربراہ پروفیسر نائمہ سعید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس واقعے نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ پولیس کے اندر احتساب کے عمل کو مضبوط بنانا ناگزیر ہے۔
ان کے مطابق جب پولیس کے اہلکار خود ہی جرائم میں ملوث پائے جائیں تو یہ نہ صرف ادارے کے اندرونی نظام کی کمزوری ظاہر کرتا ہے بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل پولیس اہل کاروں کے اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، سٹریٹ کرائم اور ڈکیتیوں میں ملوث ہونے کے انکشافات نے شہریوں کو حیران کر دیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر اہل کار کی مسلسل نگرانی کی جائے اور ایسے کیسز میں سخت قانونی کارروائی کر کے یہ پیغام دیا جائے کہ ادارہ اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کو برداشت نہیں کرے گا۔
پولیس اہل کاروں کے مجرمانہ سرگرمیوں میں شمولیت ہونے پر کراچی پولیس سے موقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن خبر شائع ہونے تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہو سکا۔

 

شیئر: