Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اے ایس آئی ریپ ملزمان تک کیسے پہنچا؟

جب صوبہ سندھ کے ضلع کشمور میں پولیس کو ریپ کا شکار بننے والی کمسن بچی کو بازیاب کروانے کے لیے کوئی لیڈی پولیس اہلکار نہ مل سکی تو اے ایس آئی محمد بخش برڑو نے رضاکارانہ طور پر آپریشن کے لیے اپنی بیٹی کا نام دیا۔
وہ ملزمان تک پہنچنے میں بھی کامیاب ہو گئے اور انہیں گرفتار بھی کر لیا۔ ایک بچی کی جان بچانے کے لیے اے ایس آئی محمد بخش نے اپنی اکلوتی بیٹی کی جان کو خطرے میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
محمد بخش نے اردو نیوز کے لیے صحافی نذر محمد کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ 31 اکتوبر کو ایک خاتون تھانے آئیں تو پوچھنے پر خاتون نے بتایا کہ ان کے ساتھ زیادتی کی اور بچی بھی چھین لی۔
’اس کے بعد میں خاتون کو کہا کہ وہ دو بجے تھانے آ جائیں اور میں باہر کسی کام سے چلا گیا۔ خاتون نے ہیڈ محرر سے کہا کہ اس کے پاس رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ ہیڈ محرر نے اسے میرے گھر بھیج دیا جہاں وہ 10 روز رہی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ دن رات روتی رہتی تھیں اور بچی کو بازیاب کروانے کا کہتی تھیں۔
محمد بخش نے کہا کہ ’انہوں نے ملزم کے ساتھ خاتون کی بات کروائی جس نے ان کے ساتھ بچی کی بات کروائی۔ ملزم نے خاتون سے کہا کہ وہ اسے کوئی عورت لا کر دے تو وہ بچی کو چھوڑ دے گا ورنہ دونوں کو قتل کر دے گا۔‘
‘میں نے خاتون سے کہا کہ اسے کہو کہ دو تین دن میں اسے عورت مہیا کر دی جائے گی۔ میں سوچا کہ لیڈی پولیس کے ذریعے ان تک پہنچا جائے لیکن وہ نہیں ملی، پھر میں اپنی بیوی سے کہا کہ مدد کرے۔ وہ بھی تیار تھی لیکن میری بیٹی نے بھی ملزم کو پکڑنے میں مدد کرنے کی حامی بھر لی۔‘
ان کے مطابق متاثرہ خاتون نے بعد میں ملزم کے ساتھ ان کی بیٹی کی بات کروائی اور اس طرح کشمور کے سٹی پارک میں ملاقات کا وقت طے ہوا۔
’میں نے خاتون اور اپنی بیٹی کو پارک میں بھیجا اور میں اور میرے ساتھی موقعے پر سٹی پارک میں پہنچ گئے جہاں سے اسے گرفتار کیا گیا۔‘

’’سندھ پولیس اچھی ہے اگر اسے اچھی نظروں سے دیکھا جائے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اے ایس آئی محمد بخش نے بتایا کہ گرفتاری کے بعد ملزم نے اس بات سے انکار کر دیا کہ بچی اس کے پاس ہے۔ اس کے بعد ان کے ساتھی پولیس اہلکار نے اسے جھانسہ دینے کے لیے کہا کہ اگر وہ بچی کو حوالے کر دے گا تو اسے چھوڑ دیا جائے۔ جس پر وہ رضامند ہو گیا کہ بچی اس کے گھر میں ہے۔
’جب ہم اس کے گھر میں گئے تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ خاتون نے بتایا کہ اس کمرے میں ملزمان نے زیادتی کی اور دوسرے کمرے میں بچی کو بند کیا۔ ہمیں کمرے میں بچی ایک گندے کپڑے میں لپٹی ملی جسے ہسپتال پہنچایا گیا۔‘
محمد بخش نے کہا کہ انہیں ڈی آئی جی کا فون آیا جنہوں نے کہا کہ ’محمد بخش میرے پاس ایسے الفاظ نہیں ہیں کہ میں تمہارا شکریہ ادا کر سکوں۔ میں نے سنا کہ سندھ حکومت نے مجھے 10 لاکھ روپے انعام دینے کا کہا ہے اور قائداعظم پولیس میڈل دینے کا بھی کہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سندھ پولیس اچھی ہے اگر اسے اچھی نظروں سے دیکھا جائے۔ ہم خود کو عوام کا نوکر سمجھتے ہیں۔‘

شیئر: