Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’وزیراعظم کو ٹھنڈی بوتلیں پیش نہ کرنے پر کمشنر سے وضاحت طلب‘

چیف سیکرٹری کی جانب سے واش روم اور صفائی کی صورتحال پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے (فوٹو: پی آئی ڈی)
وزیراعظم عمران خان کو بلوچستان کے دورہ کے موقع پر ٹھنڈی مشروبات اور اچھے معیار کی پلیٹوں میں کھانا کیوں پیش نہیں کیا گیا؟
چیف سیکرٹری بلوچستان نے وزیراعظم کے دورہ تربت کے موقع پر انتظامات میں کوتاہیاں برتنے پر کمشنر مکران ڈویژن سمیت کئی افسران سے وضاحت طلب کر لی۔
چیف سیکرٹری دفترکی جانب سے آڈیٹوریم میں چیف سیکرٹری کی نشست کونے میں رکھنے، ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی پولیس کی جانب سے وزیراعظم کے قریب جانے کی کوشش پر بھی اعتراض اٹھایا گیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے 13 نومبر کو وفاقی وزرا، گورنر بلوچستان، پنجاب اور بلوچستان کے وزرا اعلیٰ کے ہمراہ بلوچستان کے ضلع کیچ کے ضلعی ہیڈ کوارٹرز تربت کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے قبائلی عمائدین اور تربت یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کے علاوہ جنوبی بلوچستان کے لیے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان بھی کیا تھا۔

 

چیف سیکرٹری بلوچستان کے دفتر کی جانب سے دورے کے ایک ہفتے بعد 20 نومبر کو کمشنر مکران ڈویژن سمیت دورے کے انتظامات کے پابند کئی دوسرے متعلقہ افسران کو دورے کے موقع پر کوتاہیوں سے متعلق تحریری طور پر وضاحت طلب کی کی گئی ہے۔
اردو نیوز کو موصول ہونے والے سرکاری مراسلے کے مطابق چیف سیکرٹری نے ایڈیشنل سیکرٹری (مانیٹرنگ اینڈ امپلی مینٹیشن ) کے ذریعے کمشنر مکران ڈویژن سے سات دن کے اندر انتظامات میں کوتاہیوں پر تحریری پر جواب جمع کرانے کا کہا ہے۔
مراسلے میں کمشنر مکران ڈویژن کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’آپ اس بات کے ذمہ دار تھے کہ چیف سیکرٹری بلوچستان کی جانب سے دی گئی تفصیلی ہدایات پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کو یقینی بناتے مگر انتظامات میں دس سے زائد امور میں کوتاہیاں کی گئیں۔‘
چیف سیکرٹری کے دفتر نے شکایت کی ہے کہ ’دورہ تربت میں وزیراعظم اور دیگر مہمانوں کو دوپہرکا کھانا جن پلیٹوں میں پیش کیا گیا وہ کم معیار کے تھے حالانکہ اس بارے میں واضح ہدایات دی گئی تھیں۔ جبکہ وزیراعظم اور دیگر مہمانوں کو پیش کی گئی پیپسی، کوک اور دیگر مشروبات بھی مناسب طور پر ٹھنڈی نہیں تھیں۔‘
واش روم اور صفائی کی صورتحال پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ راستے اور رواش رومز گندے تھے۔

وزیراعظم کو بریفنگ دینے کے لیے پریزینٹیشن روم میں کوئی متبادل لیپ ٹاپ اور یا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر موجود نہیں تھا اور کوئی قابل لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر آپریٹر بھی دستیاب نہیں تھا جو سسٹم میں آنے والی پیچیدگیوں کو سنبھال سکتا۔
آڈیٹوریم میں جہاں وزیراعظم نے قبائلی عمائدین سے ملاقات کی چیف سیکرٹری کے لیے کوئی کرسی مختص نہیں تھی۔ چیف سیکرٹری کو بالکل کونے میں بیٹھنا پڑا۔ اسی طرح دیگر انتظامی سیکرٹریز کیلئے بھی کرسیاں مارک نہیں کی گئی تھیں ۔
خط میں ڈپٹی کمشنر کیچ اور ایس ایس پی کیچ کے وزیراعظم کے انتہائی قریب جانے پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’ایس ایس پی تربت مسلسل وزیراعظم کے ساتھ بات چیت کی کوشش کرتے رہے جو وزیراعلیٰ، چیف سیکرٹری اور وزرا کی موجودگی میں آداب کی خلاف ورزی تھی۔ ڈپٹی کمشنر کیچ بھی چیف سیکرٹری کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے قریب چلتے رہے۔‘
مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے متعلق تقریب چھوٹے کمرے میں رکھی گئی۔ چیف سیکرٹری بلوچستان کیلئے کوئی نشست مختص نہیں تھی۔ بیٹھنے کی ترتیب میں بھی سینیارٹی کو نظر انداز کیا گیا۔
وزیراعظم کے دورے کی کوریج کیلئے کوئٹہ سے تربت جانے والے سینیئر صحافی شاہد رند نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’صرف چیف سیکرٹری ہی نہیں کئی صوبائی وزرا بھی دورے کے انتظامات سے مطمئن نہیں تھے۔ دورے کے موقع پر ہی تربت میں صوبائی وزیر انجینئر زمرک اچکزئی اور تربت سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی سید احسا ن شاہ نے نشست نہ ملنے پر وزیراعلیٰ اور سینیئر انتظامی آفیسران سے احتجاج کیا۔‘
چیف سیکرٹری جانب سے ’مناسب‘ انتظامات نہ کرنے پر افسران سے وضاحت طلب کیے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی دلچسپ اور تنقیدی تبصرے کیے گئے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل نے ٹویٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ واﺅ ، یہ ہے اصل وائسرائے۔‘
ڈاکٹر حمل بگٹی نے لکھا کہ ’ذرا دیکھ لیں سادگی کے دعوے داروں کو۔‘ شمائلہ اسماعیل نے لکھا کہ ’مکران کے عوام کے مسائل سے تو ان کے مسائل بڑے ہیں۔
ہارون ممتاز نے پنجابی میں لکھا کہ ’ٹھنڈی بوتل بھی نہ ملے تو وزیراعظم ہونے کا کیا فائدہ‘

شیئر: