Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے سمندر میں مونگے کی چٹانیں بے رنگ؟

بعض تیراک تصویریں کھینچنے کے لیے مونگوں پرکھڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ (فائل فوٹو: ان سپلیش)
پاکستان میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) نے بتایا ہے کہ پاکستانی سمندری حدود میں نایاب مچھلیوں سمیت لاکھوں سمندری مخلوقات کو مسکن فراہم کرنے والی مونگے کی چٹانوں (کورلز) کو پہلی بار نقصان پہنچنے کی اطلاع ملی ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں سمندر میں واقع یہ خوبصورت اور رنگ برنگی چٹانیں سفید یا پھر بے رنگ ہورہی ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے اس عمل کو پاکستان میں ساحلی اور سمندری حیاتیاتی تنوع کے لیے شدید خطرہ قرار دیا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق اس کی اطلاع سکوبا ڈائیونگ کے ایک پی اے ڈی آئی سند یافتہ ماہر غوطہ خور خضر شریف نے دی جنہوں نے رواں برس اکتوبر کے آخری ہفتے میں غوطہ خوری کی مہم کے دوران صوبہ بلوچستان کی حدود میں واقع چرنا جزیرے پر مونگے کی چٹانوں پر بیلچنگ کے عمل کو دیکھا۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے تکنیکی مشیر محمد معظم خان نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ ہم نے مزید تحقیق کی تو تصدیق ہوئی کہ چرنا آئی لینڈ کے شمالی اور شمال مشرقی علاقے میں اکثر مقامات پر مونگے کی چٹانیں سفید ہورہی ہیں۔ جبکہ کچھ دیگر حصوں میں بھی یہ محدود پیمانے پر شروع ہوا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے ایک انتہائی تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ 

مونگے کیا ہیں؟

میرین فشریز ڈیپارٹمنٹ کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کے مطابق مونگے کو انگریزی میں کورلز کہتے ہیں یہ زندہ اور حرکت کرنے والے جانور ہوتے ہیں جو گرم سمندری پانیوں میں چٹانوں کی شکل میں رہتے ہیں۔
ان کا تعلق جیلی فش اور پھول جیسے سمندری مخلوق کے خاندان سے ہے۔ مونگے چھوٹے چھوٹے خلیوں کی شکل میں جمع ہوتے ہیں اور بہت کم رفتار سے بڑھتے ہیں۔ اس کے اندر خود غذا پیدا کرنے یا کھانے کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لیے وہ مہمان کے طور پر ایک کائی کو اپنے اندر جگہ دیتے ہیں جسے زو زین تھینی کہتے ہیں۔
زو زین تھینی سورج کی روشنی سے کاربن ڈائی اکسائیڈ کو استعمال کر کے غذا پیدا کرتی ہے جو مونگے کے کام آتی ہے۔ زو زین تھینی کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ مونگے کی چٹانوں میں محفوظ رہتے ہیں اور کوئی اس کا شکار نہیں کرسکتا تو یہ ایک دوسرے کے مددگار کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ونگے چھوٹے چھوٹے خلیوں کی شکل میں جمع ہوتے ہیں اور بہت کم رفتار سے بڑھتے ہیں۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

لیکن منفی ماحولیاتی حالات یعنی غیر معمولی طورزیادہ یا کم درجہ حرارت یا تیز روشنی کی صورت میں مونگے اور کائی کے درمیان تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں مونگے اپنی بافتوں یا ٹشوز میں رہنے والے کائی کو دھکا دے کر نکال دیتے ہیں۔ پھر مونگے کی غذا پیدا کرنے کی یا کھانے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے اور تھوڑے دنوں کے بعد اس کا رنگ سفید ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس عمل کو بلیچنگ کہا جاتا ہے اور یہ مونگے کی موت کا سبب بنتا ہے۔

 

انہوں نے بتایا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے پاکستان میں پہلی دفعہ چرنا جزیرے کے مونگے کی چٹانوں میں اس عمل کو دیکھا ہے۔ اگر بلیچنگ بہت زیادہ ہوں تو دنیا میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ مونگے کی بہت بڑی بڑی چٹانیں ختم ہوگئیں۔

مونگے کی چٹانوں کی کتنی اہمیت ہے؟

محمد معظم خان کے مطابق مونگوں کی کالیانیاں یا چٹانیں حیاتیاتی تنوع کا ایسا گہوارا ہوتا ہے جن میں مچھلیوں اور بغیر ریڑھ کی ہڈی والے فقری جانوروں کی اتنی اقسام پائی جاتی ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ یہ سمندروں میں زندگی کی تمام اقسام میں سے ایک بہت بڑے حصے کو سہارا دیتے ہیں۔
انتہائی متنوع ماحولیاتی نظام کے سبب ان چٹانوں کو سمندر کے گھنے جنگلات بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مونگے کی چٹانوں میں افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا کے جنگلوں سے بھی زیادہ جانور پائے جاتے ہیں۔ ان میں ایسی نایاب مچھلیاں بھی ہوتی ہیں جو ہم سے بیشتر نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی ہوتیں۔

غیر معمولی طور پر گرم یا ٹھنڈا درجہ حرارت یا تیز روشنی کی وجہ سے مونگے کا رنگ سفید پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 2003ء میں پہلی بار مونگے کی چٹانوں کی دریافت ڈبلیو ڈبلیو ایف اور جامعہ کراچی کے میرین ریفرنس اینڈ ریسورس سینٹر نے مشترکہ طور پر کی تھی۔ اس کے بعد اس پر مزید تحقیق کی گئی۔ مجموعی طور پر پاکستان کے ساحلی پانیوں میں 55 زندہ مونگے پائے جاتے ہیں جو پاکستان کے 11 سو کلومیٹر طویل ساحل میں سے محدود پیمانے پر صرف بلوچستان کے جزیروں چرنا، ہسٹولا (ہفت تالار)، اورماڑہ، جیونی اور گوادر کے چند مخصوص علاقوں میں ہیں۔
ان مونگوں کو بھی ماحولیاتی تبدیلی اور دیگر خطرات، خصوصاً آلودگی سے خطرات کا سامنا ہے۔ اس کے مقابلے میں جیسے ہی سمندر میں ایرانی حدود شروع ہوتی ہے تو وہاں مونگے کی بڑی چٹانیں شروع ہوتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ علاقائی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں مونگے کی چٹانیں بہت کم ہونے کی وجہ یہاں کے سمندر کا مخصوص ماحول ہے۔

مونگے کی چٹانوں کی تباہی کی وجوہات اور بچاﺅ کا راستہ 

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں مونگے کی چٹانوں کے تباہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن صنعتی سرگرمیوں کی وجہ سے سمندری پانی کے درجہ حرارت میں اضافہ سب سے بڑی ممکنہ وجہ ہوسکتی ہے کیونکہ چرنا جزیرے کے قریب کوئلہ سے بجلی بنانے کا کارخانہ اور آئل ریفائنری موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ ان سرگرمیوں کے مجموعی اثرات اورمچھلی کے شکار کے لیے ممنوعہ جالوں کا استعمال، پلاسٹک سمیت کچرے کی موجودگی مونگوں کی تباہی کے لیے ذمہ دار ہوں۔

انتہائی متنوع ماحولیاتی نظام کے سبب مونگے کی چٹانوں کو سمندر کے گھنے جنگلات بھی کہا جاتا ہے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

انہوں نے بتایا کہ چرنا جزیرے میں ایل پی جی ٹرمینل قائم کرنے کا منصوبہ بھی بنایا جارہا ہے جو مزید نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر اس طرح کی صنعتی اور ترقیاتی سرگرمیاں چرنا جزیرے میں جاری رکھی گئیں تو پھر یہ نہ صرف مونگے کی چٹانوں پر اثرانداز ہوں گی بلکہ اس علاقے میں موجود بھر پور حیاتیاتی تنوع کا خاتمہ کرسکتی ہیں۔
محمد معظم خان کے مطابق مونگے کی چٹانوں کی محدودیت کی وجہ سے ان کا تحفظ بہت ضروری ہے کیونکہ جب مونگے مریں گے تو اس کے سہارے رہنے والے سارے جانور بھی ختم ہوتے جائیں گے۔ اس لیے سب سے پہلے وزیراعلیٰ بلوچستان کے آبائی ضلع لسبیلہ کی ساحلی حدود میں واقع ’چرنا آئی لینڈ‘ اور ڈام کے قریب ‘میانی ہور‘ کے سمندری علاقے کو گوادر سے 40 کلومیٹر دور استولا آئی لینڈ کی طرح سمندری حیات کے لیے قانونی طور پر محفوظ علاقہ قرار دیے جانے کی ضرورت ہے۔ 
انہوں نے بتایا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے اس سلسلے میں ایک قانونی مسودہ بھی بناکر صوبائی حکومت کو دیا تھا لیکن تین سال سے اب تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مرین پروٹیکٹڈ ایریا (ایم پی اے ) یعنی سمندری حیات کے لیے محفوظ علاقہ قرار دیے جانے کی صورت میں صنعتی سرگرمیوں پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ سمندری سیاحت اور مچھلیوں کے شکار کے عمل کو بھی بہتر اور محدود کیا جا سکے گا۔
بلوچستان کے سیکریٹری ماحولیات عبدالصبور کاکڑ نے اردونیوز کو بتایا کہ انہوں نے اس موضوع پر متعدد ماہرین سے بات کی ہے مگر مونگے کی چٹانوں پر بلیچنگ کی واضح وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہے۔
ان کا کہنا تھا ’ہم لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچراور واٹر اینڈ میرین سائنسز کے ماہرین کو سائنسی طور پر اس کی وجوہات جاننے کے لیے بھیجیں گے‘
انہوں نے بتایا کہ تحقیق کے بعد اسے استولا کی طرز پر سمندری محفوظ علاقہ قرار دینے کے لیے معاملہ بلوچستان حکومت کے سامنے رکھا جائے گا۔

'پاکستان میں صنعتی سرگرمیاں مونگوں کی چٹانوں کے تباہ ہونے کی ممکنہ وجہ ہوسکتی ہیں۔' فوٹو: اردو نیوز

بلوچستان میں محکمہ جنگل و جنگلی حیات کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نیاز محمد کاکڑ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان حکومت کی کوشش ہے کہ استولا جزیرے کی طرح صوبے کے مزید سمندری اور زمینی علاقوں کو ’پروٹیکٹڈ ایریاز‘ قرار دیا جائے تاکہ وہاں پائے جانے والے جانوروں اور پودوں کا تحفظ کیا جاسکے۔ چرنا آئی لینڈ کو محفوظ علاقہ قرار دیے جانے میں کچھ قانونی پیچیدگیاں ہیں جنہیں دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔
چرنا کے مونگوں پر سیاحت کے بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ محمد معظم خان کے مطابق گذشتہ چند سالوں سے چرنا جزیرہ سنار کلنگ اور سکوبا ڈائیونگ جیسی تفریحی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اگرچہ بیشتر غوطہ خور باشعور ہیں اور ان مونگوں کو نقصان نہیں پہنچاتے مگر بعض تیراک تصویریں کھینچنے کے لیے ان مونگوں پرکھڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ ماہی گیر مونگوں کو اکھاڑ کر تاجروں کو فروخت کرنے میں بھی ملوث ہیں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں