Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چمن میں مظاہرین اور فورسز میں تصادم: دو ہلاک، 25 زخمی

اسسٹنٹ کمشنر ذکاء اللہ درانی کا کہنا ہے کہ کشیدگی کے باوجود پاک افغان سرحد بند نہیں ہوئی (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان کے شہر چمن میں پاک افغان سرحد پر مشتعل ہجوم اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ میں مزید 18 افراد زخمی ہوگئے۔
ضلعی انتظایہ کے مطابق دو روز سے جاری جھڑپوں میں دو افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوچکے ہیں۔
قلعہ عبداللہ کے اسسٹنٹ کمشنر ذکا اللہ درانی نے اردو نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ اتوار کو پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ سرحد پر واقع باب دوستی گیٹ پر سامان کی تلاشی کے معاملے پر تنازع شروع ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ’ایف سی اہلکار مشتبہ سامان کی چیکنگ کر رہے تھے اس دوران ان کی چھوٹے پیمانے پر سامان سمگل کرنے والے افراد (جنہیں مقامی زبان میں لغڑی کہا جاتا ہے ) سے تلخ کلامی ہوئی۔
اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق تلخ کلامی کے بعد بات ہاتھا پائی اور پتھراؤ تک پہنچی۔ مشتعل ہجوم نے ایف سی اہلکاروں پر مسلسل پتھراؤ کیا تو جواب میں ایف سی اہلکاروں نے فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں نو افراد زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں دو افراد 17 سالہ مطیع اللہ اچکزئی اور 12 سالہ ثناء اللہ بعد ازاں دم توڑ گئے۔
واقعہ کے خلاف مشتعل افراد نے سرحد پر زیر تعمیر نیشنل لاجسٹک سیل کے بارڈر ٹرمینل پر دھاوا بول دیا اور کنٹینرز کو آگ لگا دی۔ کوئٹہ اور چمن میں مختلف مقامات پر دھرنے بھی دیے گئے۔
اسسٹنٹ کمشنر ذکااللہ درانی نے بتایا کہ سوموار کو دوسرے روز صبح نو بجے پاک افغان سرحد پر آمدروفت کا سلسلہ معمول کے مطابق شروع ہوا تو ایف سی اہلکاروں نے چیکنگ سخت کر رکھی تھی جس پر ’لغڑیوں‘ نے دوبارہ احتجاج شروع کیا۔

اتوار کو پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ سرحد پر سامان کی تلاشی کے معاملے پر تنازع شروع ہوا (فوٹو: فیس بک)

اسسٹنٹ کمشنر ذکااللہ درانی نے سرحدی گیٹ کی جانب جانے کی کوشش کی تاہم ایف سی اہلکار پہلے سے تیار کھڑے تھے انہوں نے کشیدہ صورتحال کے پیش نظر قریبی ضلع پشین سے اضافی نفری بھی بلا رکھی تھی۔
سرحدی گیٹ سے پیچھے دھکیلا گیا تو مظاہرین نے ایف سی قلعہ کی جانب جانے کی کوشش کی۔ انہوں نے قلعہ پر پتھراؤ بھی کیا۔ مظاہرین نے مذاکرات کے لیے جانے والے جے یو آئی کے رکن قومی اسمبلی کے بھائی کی گاڑی کے شیشے بھی توڑ دیے۔
اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق پورا دن مظاہرین اور ایف سی اہلکاروں میں تناؤ رہا۔  ایف سی نے مظاہرین کو پیچھے دھکیلنے کے لیے فائرنگ کی جس سے مزید 18 افراد زخمی ہوگئے۔ ان زخمیوں میں دو کی حالت تشویشاک ہے۔
سول ہسپتال کوئٹہ کے ترجمان ڈاکٹر وسیم بیگ کے مطابق چمن سے نو شدید زخمیوں کو سول ہسپتال کوئٹہ لایا گیا ہے ان سب کو گولیاں لگی ہیں۔ زخمیوں میں 18 سال سے کم عمر چار لڑکے بھی شامل ہیں۔ ایک زخمی کو انتہائی نگہداشت یونٹ میں رکھا گیا ہے۔
چمن واقعہ کے خلاف کوئٹہ میں بھی ہلاک ہونے والے مطیع اللہ کے لواحقین اور پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں نے میت کے ہمراہ بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا۔ مظاہرین نے فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

ضلعی انتظایہ کے مطابق دو روز سے جھڑپ جاری ہے (فوٹو: فیس بک)

اسسٹنٹ کمشنر ذکا اللہ درانی کا کہنا ہے کہ کشیدگی کے باوجود پاک افغان سرحد بند نہیں ہوئی اور آمدورفت کا سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی مدد سے ضلعی انتظامیہ نے مظاہرین سے مذاکرات کیے۔ ایف سی دستوں کو ہٹا کر سرحدی علاقے میں سول فورسز تعینات کرنے کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل رواں سال 30 جولائی کو بھی چمن میں پاک افغان سرحد پر چھوٹے پیمانے پر سامان سمگل کرنے والے افراد اور سکیورٹی اہلکاروں میں جھڑپ ہوئی تھی جس میں پانچ افراد جاں بحق اور 20 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ان متاثرہ افراد میں پانچ روز قبل ہی بلوچستان حکومت نے ایک کروڑ 79 لاکھ روپے کی امدادی رقوم کے چیک تقسیم کیے۔

واقعہ کے خلاف مشتعل افراد نے کنٹینرز کو بھی آگ لگا دی (فوٹو: فیس بک)

آل پارٹیز تاجر لغڑی اتحاد کنوینئیر محمد اسلم اچکزئی کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد پر چھوٹے پیمانے پر ٹیکس کے بغیر سامان لانے اور لے جانے والے پندرہ ہزار سے زائد افراد گزشتہ دس ماہ سے بے روزگارہیں۔ انہیں اب سامان کی ترسیل کی اجازت نہیں دی جارہی۔ ’ہمارا مطالبہ ہے کہ ان افراد کا روزگار بحال کیا جائے۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جون سے جولائی تک دو ماہ تک دھرنا بھی دیا اس دوران ایک ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آیا جس کے بعد حکومت نے صوبائی وزیرداخلہ کی سربراہی میں کمیٹی بناکر مطالبات منظور کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر اب تک وعدوں پرعمل نہیں ہوا۔

شیئر: