Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں مزاحمت کی علامت ’شاہین باغ کی دادی‘ بلقیس بانو کون ہیں؟

بلقیس بانو کو ٹائمز میگزین نے دنیا کی انتہائی بااثر شخصیات میں شامل کیا (فوٹو: این ڈی ٹی وی)
انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں شہریت کے قانون کے خلاف ہونے والے دھرنے کی پہچان بننے والی ’شاہین باغ کی دادی‘ بلقیس بانو کو چند روز قبل کسانوں کے احتجاج میں شرکت سے روک دیا گیا۔
انڈین نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق شاہین باغ میں لگے احتجاجی کیمپ میں سخت سردی کے دوران ہزاروں خواتین اور بچوں کے ساتھ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے خلاف مزاحمت کی علامت بننے والی بلقیس بانو کو ستمبر میں ٹائمز میگزین نے دنیا کی انتہائی بااثر شخصیات میں شامل کیا۔
ٹیلی گراف اخبار کے مطابق بلقیس بانو کی عمر 82 برس ہے اور وہ اتر پردیش کے ایک گاؤں سے آٹھ برس پہلے دہلی منتقل ہوئی تھیں، جبکہ ان کے خاندان کے دیگر افراد بہت پہلے دہلی آ گئے تھے۔
شاہین باغ میں احتجاج کرنے سے قبل وہ گھر کے کاموں میں مصروف رہتی تھیں، اس کے علاوہ وہ ایک فارم ہاؤس پر کام کرتی تھیں جہاں وہ دیگر کاموں سمیت مویشیوں کو بھی نہلاتی تھیں۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق چند روز قبل جب انہیں زرعی اصلاحات کے خلاف سراپا احتجاج ہزاروں انڈین کسانوں کے احتجاج میں شریک ہونے سے روکا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’ہم کسانوں کی بیٹیاں ہیں۔ ہم کسانوں کے ساتھ مل کر احتجاج کرنا چاہتی ہیں۔ ہم اپنی آواز بلند کریں گی اور حکومت کو اسے سننا ہوگا۔‘
تاہم انہیں یہ اجازت نہیں دی گئی اور پولیس نے انہیں جنوب مشرقی دہلی میں واقع ان کے گھر پہنچا دیا۔
ٹائمز میگزین نے بلقیس بانو کے پروفائل میں لکھا کہ ’وہ انڈیا میں کمزور لوگوں کی آواز بنیں۔ ایک ایسے ملک میں مزاحمت کی علامت بنیں جہاں مودی حکومت میں خواتین اقلیت کی آواز کو ایک خاص طریقے سے دبایا جا رہا ہے۔‘
’ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے میں جھنڈا تھامے بلقیس کمزور طبقے کی آواز بنیں۔ وہ صبح آٹھ بجے سے رات 12 بجے تک احتجاجی کیمپ میں رہتی تھیں۔‘

’ہم یہ اپنے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے کر رہے ہیں۔‘ (فوٹو: گیٹی امیجز)

دھرنے کے دوران انہوں نے این ڈی ٹی وی کو بتایا تھا کہ ’اس احتجاج کو دیکھو۔ یہاں صرف مسلمان احتجاج نہیں کر رہے۔ آئیں اور دیکھیں کہ کتنے لوگ خوراک تقسیم کر رہے ہیں۔ وہ سب مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔‘
جب انڈین ایکسپریس نے ان سے پوچھا کہ اتنی بوڑھی عمر میں وہ احتجاج کیوں کر رہی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم عمر رسیدہ ہیں اور ہم یہ اپنے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے کر رہے ہیں۔ ورنہ ہم بھلا کھلے آسمان کے نیچے اس سخت سردی میں احتجاج کیوں کرتے؟‘

شیئر: