Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مقامی سطح پر الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری میں تاخیر کیوں؟

مقامی سطح پر نہ تو موبائل فونز تیار ہوئے اور نہ الیکٹرک گاڑیاں متعارف کرائی جا سکیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے سال 2020 میں ملک میں مقامی سطح پر موبائل فونز اور الیکٹرک گاڑیاں جن میں موٹر سائیکل رکشہ اور ہیوی ٹرک شامل تھے تیار کرنے کے لیے پالیسیوں کی منظوری دی۔
کئی برسوں کے ہوم ورک کے بعد تیار کی جانے والی ان پالیسیوں کی منظوری کے باوجود نہ تو مقامی سطح پر موبائل فونز تیار کیے جا سکے ہیں اور نہ الیکٹرک گاڑیاں متعارف کرائی جا سکی ہیں۔
وزارت صنعت و پیداوار نے ان پالیسیوں میں کچھ خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایف بی آر کو ٹیکس معاملات پر تحفظات ہیں۔ اس لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی ایک مرتبہ پھر ان پالیسیوں کا جائزہ لے۔
دوسری جانب پاکستان الیکٹرک وہیکلز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ الیکٹرک وہیکلز پالیسی کو ناکام بنانے کے پیچھے انجینیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے الگ بورڈ تشکیل دیا جائے۔

 

اردو نیوز کو دستیاب وزارت صنعت و پیداوار کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بھیجی گئی سمری میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے ای سی سی کے فیصلے کی روشنی میں دو جون 2020 کو مقامی سطح پر موبائل فون تیار کرنے کے حوالے سے پالیسی کی منظوری دی تھی۔
’وفاقی کابینہ کے اس فیصلے کے بارے میں ایف بی آر اور ریونیو کو آگاہ کیا گیا لیکن انھوں نے فنانس بل 2020-21 میں اس پالیسی کے تحت ہونے والے فیصلوں کو مکمل طور پر شامل نہیں کیا۔‘
وزارت صنعت و پیداوار نے اپنی سمری میں کہا ہے کہ وزارت نے موبائل فونز کی مقامی سطح پر تیاری اور صنعتی سرگرمیوں میں تیزی لانے کے لیے مقامی سطح پر تیار ہونے والے فونز کی فروخت پر ریٹیلز پر عائد ہونے والے چار فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے اور 200 ڈالر سے زائد مالیت کے مقامی موبائل فون پر سیلز ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی ہے۔
ایف بی آر کو اس تجویز سے اتفاق نہیں ہے اور انھوں نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
وزارت کا کہنا ہے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی ان تجاویز اور ایف بی آر کے تحفظات کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے تاکہ انھیں ٹیکس قوانین میں شامل کیا جا سکے۔
وزارت صنعت و پیداوار کا کہنا ہے کہ اسی طرح الیکٹریکل وہیکل پالیسی کے تحت الیکٹرک موٹر سائیکل، رکشہ اور ہیوی ٹرک بنانے میں دلچپسی لینے والوں کو بھی سہولت فراہم کرنے کی ضرورت ہے جو کہ پہلے سے منظور شدہ پالیسی میں شامل نہیں کیے جا سکے۔

'انجینیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ میں الیکٹرک وہیکلز سے متعلق علم رکھنے والا ایک بھی بندہ شامل نہیں۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

وزارت نے تجویز کیا ہے کہ بیرون ملک سے تیار ہونے والی الیکٹرک وہیکل گاڑی کی درآمد پر عائد ایڈیشنل کسٹم ٹیکس اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس ختم کیا جانا چاہیے۔
وزارت صنعت و پیداوار نے اسی سمری میں تسلیم کیا ہے کہ الیکٹریک وہیکل پالیسی فور وہیلز کچھ مشکلات کا شکار ہے جس کی وجہ سے اس میں تاخیر ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔
وزارت کا کہنا ہے کہ الیکٹریکل وہیکل پالیسی فور وہیلز کا ڈرافٹ متعلقہ وزارتوں، اداروں اور حکومتوں کو بھیجا گیا ہے تاہم ان کی طرف سے مقررہ وقت کے اندر سفارشات، تجاویز یا جواب موصول نہیں ہو سکا۔
دوسری جانب پاکستان الیکٹرک وہیکلز مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شوکت قریشی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا ہے کہ 'الیکٹرک وہیکل پالیسی پر عمل در آمد میں تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی کی طرف سے تیار کی گئی پالیسی کو ایک طرف کرتے ہوئے انجینیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کی تیاری کی گئی پالیسی منظور کی گئی جس میں مینوفیکچررز کو دی گئی تمام سہولیات ختم کر دی گئیں۔'
انھوں نے کہا کہ ’نہ صرف ٹیکس ریلیف ختم کیا گیا بلکہ 100 گاڑیوں کی درآمد کی اجازت منسوخ کرکے صرف دس گاڑیاں درآمد کرنے کی شرط عائد کر دی گئی۔ جس کے بعد بہت سے سرمایہ کاروں نے اس شعبے میں سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا۔'
الیکٹرک وہیکلز مینوفیکچررز کا کہنا ہے کہ 'انجینیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ میں الیکٹرک وہیکلز سے متعلق علم رکھنے والا ایک بھی بندہ شامل نہیں ہے۔ وہاں پر مافیا کے نمائندے موجود ہیں جو اس وقت تک اس پالیسی پر عمل درآمد نہیں ہونے دیں گے جب تک بڑی آٹو کمپنیاں الیکٹرک گاڑیاں بنانا شروع نہیں کر دیتیں۔'

پالیسی کے مطابق پاکستان میں بننے والی الیکٹرک وہیکلز پر کوئی رجسٹریشن فیس اور ٹوکن ٹیکس نہیں عائد ہوگا (فوٹو: ٹوئٹر)

انھوں نے کہا کہ 'موجودہ صورت حال میں مزید تین سے چار سال تک الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد اور مقامی سطح پر تیاری ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ اگر حکومت اس حوالے سے سنجیدہ ہے تو فوری طور الگ سے الیکٹرک وہیکلز بورڈ تشکیل دے۔'
یاد رہے کہ الیکٹرک گاڑیوں سے متعلق پالیسی کے تحت اگلے چار برس میں ایک لاکھ گاڑیوں کو برقی ٹیکنالوجی پر لانے کا پروگرام تھا جبکہ اسی دوران پانچ لاکھ موٹر سائیکل اور رکشے بجلی پر چلائے جانے تھے۔
 الیکٹرک وہیکل کے پرزوں کی درآمد پر ایک فیصد کسٹم ڈیوٹی ہوگی جبکہ پاکستان میں بننے والی الیکٹرک گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور رکشوں پر ایک فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگایا جائے گا۔
پاکستان میں بننے والی الیکٹرک وہیکلز پر کوئی رجسٹریشن فیس اور ٹوکن ٹیکس نہیں عائد ہوگا۔ ان کے لیے خاص رجسٹریشن پلیٹس متعارف کروائی جائیں گی۔
2030   تک ملک کی 30 فیصد گاڑیوں کو الیکٹرک ٹیکنالوجی پر لا کر تیل کے درآمدی بل میں دو ارب ڈالر کی بچت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے لیے خصوصی اکنامک زونز بنانے کی تجویز دی گئی۔

شیئر: