Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فردوس کے بعد کوئی اور ہیر جچی ہی نہیں

1970 میں 'ہیر رانجھا' کی ریلیز نے فردوس بیگم کے لیے کامیابی کے ریکارڈز قائم کیے۔ فوٹو: فیس بک
ماضی کی معروف ہیروئن فردوس بیگم انتقال کر گئیں ہیں۔ انہیں برین ہیمبرج ہونے پر نجی ہسپتال لے جایا گیا جہاں بدھ کو وہ 80 سال کی عمر میں چل بسیں۔
دراز قد، نشیلی آنکھیں، دلکش خدوخال کی حامل ماضی کی اداکارہ فردوس بیگم جنہیں پاکستان فلم انڈسٹری کی ہیر بھی کہا جاتا ہے، 1960 کے اوائل میں بطور رقاصہ فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والی پنجابی مٹیار کا تعلق بھی وہیں سے تھا جہاں سے اس دور کی باقی اداکارائیں آئیں تھیں۔
ڈیڑھ سو سے زائد اردو، پنجابی اور پشتو فلموں میں کام کیا، کیریئر کے شروع میں انہیں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔
ان کا اصلی نام پروین تھا۔ دراز قد ہونے کی وجہ سے انہیں پینو پوڑی بھی کہا جاتا تھا۔
فردوس بیگم نے اس دور کے تقریباً تمام ہیروز کے ساتھ کام کیا جن میں اکمل، اعجاز درانی، حبیب، سدھیر اور یوسف خان کے نام قابل ذکر ہیں۔
ان کا نام بہت سارے ہیروز کے ساتھ بھی جڑا لیکن شادی انہوں نے غیر فلمی شخص سے کی۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔
ان کے ایک بیٹے علی کی شادی اداکارہ نشو کی چھوٹی بیٹی کے ساتھ ہوئی یوں نشو اور فردوس بیگم سمدھن بھی ہیں۔
نشو بیگم نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'فردوس بیگم نہایت ہی ملنسار خاتون تھیں۔ اس قدر خوش اخلاق کہ بیان سے باہر ہے۔ وہ میری بیٹی کی ساس تھیں۔ ان جیسی ساس دنیا میں ہو ہی نہیں سکتی‘
نشو بیگم کے بقول ’جب انہیں (فردوس بیگم کو) برین ہیمرج ہوا تو میری بیٹی جو ان کی بہو ہے اس کا رو رو کر برا حال تھا۔ انہوں نے میری بیٹی کو بہت خوش رکھا ہوا تھا میری بیٹی کے رونے سے اندازہ لگا لیں کہ فردوس بطور ساس کیسی تھیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’فردوس بیگم کو برین ہیمرج ہونے سے ایک دن پہلے ہم سب ایک ساتھ ہی تھے اس روز ہم بہت ہنسے بہت ہی خوشگوار ملاقات تھی، فلمی دنیا سے تو بہت پہلے ہی کنارہ کشی اختیار کر چکی تھیں بچوں کی دیکھ بھال خصوصی طور پر گرینڈ بچوں میں انوالو رہتی تھیں ان کا اس طرح بیمار پڑ جانا فلم انڈسٹری کے ساتھ ساتھ ہمارے خاندان کا بھی ایک بڑا نقصان ہے۔'
ساٹھ کی دہائی میں ایور نیو اور باری سٹوڈیو پنجابی فلموں کے گڑھ بن گئے تھے اور ایک سے بڑھ کر ایک اچھی پنجابی فلم بن رہی تھی، اُس دور کی پنجابی فلم ”ملنگی “ نے فردوس کے فلمی کیرئیر کی ڈگر بد ل ڈالی اور انہیں پنجابی فلموں کے سب سے بڑو ہیرو اکمل کی ہیروئین بنا دیا۔

پنجابی فلم ”ملنگی “ نے فردوس کے فلمی کیرئیر کی ڈگر بد ل ڈالی اور انہیں پنجابی فلموں کے سب سے بڑو ہیرو اکمل کی ہیروئین بنا دیا 

شروع میں ان کا کیرئیر ہچکولے کھاتا رہا لیکن بہت جلد ایک وقت ایسا بھی آیا کہ فردوس بیگم کسی بھی پنجابی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جانے لگیں،اکمل اور اعجاز کے ساتھ ان کی جوڑی ایسی بنی کے فلم بین ان کی فلموں کو دیوانہ وار سینما گھروں میں دیکھنے جاتے۔
فلموں میں مرکزی کردار نبھانے والی اداکارہ کی 1970میں 'ہیر رانجھا' ریلیز ہوئی جس نے کامیابی کے ریکارڈز قائم کیے۔ فردوس نے ہیر کے کردار میں اپنی شخصیت اور اداکاری سے ایسے رنگ بھرے کہ فلم بینوں کو ان کے بعد کوئی اور ہیر جچی ہی نہیں۔
اگلے ہی سال انہیں فلم ”آنسو“ میں اداکار شاہد کی ماں کر کردار نبھاتے دیکھا گیا۔
فلمسٹار شاہد حمید نے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فردوس بیگم نے میری ماں کا کرداربہت ہی زبردست انداز میں نبھایا۔ وہ پنجابی فلموں میں زیادہ تر کام کرتی تھیں لیکن آنسو اردو فلم تھی اس میں بھی ان کی اداکاری کو بے حد پسند کیا گیا۔‘
انہوں نے اس فلم کے ایک سین کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’فلم میں ایک سین تھا کہ میں جس میں کالج نہ جانے کا بہانہ کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ میرے پیٹ میں درد ہورہا ہے اس سین میں ایک موومنٹ تھی جو مجھ سے ہو نہیں رہی تھی۔ فردوس بیگم میرا کاندھا دباتی تھیں تو میں ٹرن کرتا تھا۔‘

فردوس بیگم کا نام بہت سارے ہیروز کے ساتھ بھی جڑا لیکن شادی انہوں نے غیر فلمی شخص سے کی (فوٹو:سوشل میڈیا)

شاہد حمید کہتے ہیں کہ ’فردوس جتنی بہترین اداکارہ تھیں اتنی بہترین انسان بھی تھیں۔ جتنی خوبصورت وہ ہیر لگی آنے والے وقتوں میں کوئی بھی اس جیسی ہیر نہیں آسکتی۔ کئی کردار ایسے ہوتے ہیں کہ جو یادگار بن جاتے ہیں۔ ہیر کا کردار فردوس بیگم نے امر کر دیا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی نہیں وہ پوری دنیا کی ہیر ہیں۔‘
خاندان، میخانہ، غدر، جھانجھر، ہیر سیال، ناچے ناگن باجے بین، ملنگی، ماجھے دی جٹی، وطن کا سپاہی، زمیندار، انسانیت، چچا جی، اکبریٰ، دشمن، مرزا جٹ، روٹی، چن مکھنا، جناب عالی، بیٹی بیٹا، شاہی محل، پنج دریا، عشق نہ پچھے ذات، پتھر تے لیک، ڈھول سپاہی، غیرت شان جواناں دی ،دنیا مطلب دی، چن آکھیاں دا ،عشق دیوانہ ،خون دا رشتہ، پیار دے پلیکھے، خون پسینہ، ہیرا موتی، اچا شملہ جٹ دا ،عید دا چن، ہٹل، میلے سجنا دے، ضدی، خون دا بدلہ خو ن و دیگر میں انہوں نے اپنی لازوال اداکاری سے فلم بینوں کے دل موہ لیے۔
بہترین اداکارہ تو تھیں ہی بہترین رقاصہ بھی تھیں ان کے کچھ گیت جو لوگوں کوآج تک یاد ہیں ان میں جتھے مرضی بلاوے تیرا پیار، ماہی گھنڈ چک لے، ماہی میرے ہان دیا، محبت میں سارا جہاں جل گیا، اب وہ زلفوں کی مہکتی ہوئی برسات کہاں، اساں تیرے پیار والی گل من لئی، وے میں چھم چھم کردی آئی، چھلا دے جا نشانی ،ایتھے کوئی نئیں سندا دل دی پکار، سن ونجلی دی مٹھری تان وے، وگدی ندی دا پانی مڑ نئیں آنا، باﺅ جی میں اک عرض کراں، ماہی وے سانوں پُل نہ جانویں و دیگر قابل ذکر ہیں۔

فلمسٹار شاہد حمید کہتے ہیں کہ ’فردوس جتنی بہترین اداکارہ تھیں اتنی بہترین انسان بھی تھیں‘ (فوٹو:سوشل میڈیا)

میڈم نور جہاں کے سپر ہٹ گانے فردوس نے اپنے خوبصورت رقص سے سجائے لیکن اداکار اعجاز جو میڈم نور جہاں کے شوہر بھی تھے وہ جب فردوس کے حسن کے اسیر ہوئے تو ان کے افئیر کے چرچے گھر گھر پہنچے۔ میڈم نور جہاں کو جب اس افئیر کا پتہ چلا تو انہوں نے فردوس کے لیے گائیکی کرنے سے انکار کر دیا اور جب تک فردوس انڈسٹری میں رہیں تب تک بائیکاٹ رکھا۔
نور جہاں کے اس بائیکاٹ نے فردوس کے کیرئیر پر منفی اثر ڈالا یہی وجہ ہے کہ انہیں کیرئیر کے عروج پر ہی کریکٹر رولز کرنے پڑے۔
فلم 'دِلاں دے سودے' میں انہوں نے دما دم مست قلندر پر دھمال ڈالی تو دیکھنے والے دیوانے ہوگئے۔ ان کی ڈائیلاگ ڈیلیوری نہایت ہی جاندار تھی۔ 1976میں انہوں نے انڈسٹری کوخیرباد کہا، اس کے بعد ایک بار پھر 1984 میں واپسی کی اور جن فلموں میں کام کیا وہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں۔

شیئر: