Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آن لائن شاپنگ خواتین کی ’بہترین چوائس‘ کیوں ہے؟

کورونا کی وبا کی وجہ سے پاکستان میں بھی لوگوں نے آن لائن شاپنگ کو ترجیح دی (فوٹو: فری پکا)
2020 جب شروع ہوا تولوگ کافی پرجوش تھے ہر کسی نے پلانز بنا رکھے تھے کہ نئے سال میں کیا کیا کرنا ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھا کوئی نہیں جانتا تھا کہ سال کے تیسرے مہینے ہی سے کورونا جیسی وبا سب کو گھر بیٹھنے پر مجبور کرنے والی ہے۔
پوری دنیا کی طرح پاکستان بھی اس وبا کی لپیٹ میں آیا تو حکومتی سطح پر ہر ممکن اقدامات کیے گئے۔ دفاتر، تعلیمی ادارے، مارکیٹس، شاپنگ مالز ہر چیز سوائے جنرل سٹورز اور میڈیکل سٹورز کے بند کر دی گئی۔
ایسے میں ہر کوئی گھر بیٹھ گیا اب جب ہر طرف سب کچھ بند کر دیا گیا تو لوگوں کو اپنی ضروریات تو پوری کرنا ہی تھیں لہٰذا لوگ آن لائن شاپنگ کی طرف راغب ہوئے، خاص طور پر خواتین۔
ویسے تو پوری دنیا میں آن لائن شاپنگ کا رجحان سالہا سال سے ہے لیکن پاکستان میں کورونا کی وبا کے دوران آن لائن شاپنگ نے زور پکڑا۔ 
لوگوں کی بڑی تعداد نے اس سے استفادہ کیا اور کئی لوگ خوش نظر آئے جبکہ کئی مایوس بھی ہوئے کیونکہ آن لائن پراڈکٹ دکھائی کچھ جاتی ہے اور جب وہ پارسل کے ذریعے موصول ہوتی تو وہ اس طرح معیاری نہ نکلتی جیسی توقع کی جا رہی ہوتی تھی۔اس کے باوجود اگرہم کہیں کہ آن لائن سیل اچھی رہی تو بے جا نہ ہوگا۔
آن لائن ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہوتی ہے۔ جوتے، کپڑے، بیگز، گھریلو استعمال کی چیزیں، جیولری اور میک اپ کا سامان وغیرہ قابل ذکر ہے۔
آن لائن ریڈی میڈ کرتے بہت زیادہ فروخت ہوئے۔ ملوں کو بھی بہت زیادہ فائدہ ہوا اوران کا کٹ پیس بہت زیادہ سیل ہوا۔ کپڑوں کی خریداری کے حوالے سے ایک بات کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ ہمارے ہاں کپڑوں کے سائز ذرا مختلف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین کو آن لائن کپڑوں کی خریداری میں دقت کا سامنا رہتا ہے۔

آن لائن شاپنگ میں ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہوتی ہے (فوٹو: فری پک)

باقی بزنس کرنے والے بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ آن لائن شاپنگ نے ان کی مشکل کو آسان کر دیا ہے۔ کورونا کی وجہ سے پہلے ہی اخراجات پورے کرنا مشکل ہو رہا تھا لیکن آن لائن نے ان اخراجات میں کمی کر دی ہے، جیسے سٹور لینا اس کا کرایہ دینا سٹاف رکھنا، مارکیٹنگ کے لوگ رکھنا، ان کو تنخواہ دینا وغیرہ سے جان چھٹ گئی۔
آن لائن سیل سسٹم کی وجہ سے کئی لوگوں کو گھر بیٹھے روزگار ملا، انہوں نے گھر بیٹھے چیزیں فروخت کیں۔ اس کے علاوہ خواتین نے بھی آن لائن شاپنگ کو خاصا سراہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہمارے پاس کہیں جا کر خریداری کرنے کا وقت نہ ہو تو آن لائن شاپنگ بہترین چوائس ہے۔‘
اگر خواتین ایک شہر سے دوسرے شہر نہیں جا سکتیں تو ایسے میں بھی وہ آن لائن آڈر کر کے پسند کی چیز منگوا کر اپنا شوق پورا کر سکتی ہیں۔

آن لائن شاپنگ پر دستیاب سیل کی وجہ سے بھی لوگ دلچسپی لیتے ہیں (فوٹو: فری پک)

جہاں تک آن لائن شاپنگ کی قیمتوں کی بات ہے تو قیمت بہتر ہی ہوتی ہے، لیکن اگر چیز ناقص نکلے تو یقیناً پھر تو مہنگی ہی تصور کی جائے گی۔ جوتے اور بیگز بھی بڑی تعداد میں خواتین نے خریدے لیکن ایسا بھی ہوا کہ آن لائن جہاں سے خریداری کی گئی وہ آئی ڈیز بعد میں بند ملیں اور لوگوں کو جو چیز موصول ہوئی وہ اوریجنل نہ تھی یوں لوگ پریشان بھی ہوئے کہ شکایت کہاں کی جائے، لہٰذا پوری دنیا کی طرح پاکستان میں آن لائن سیل رجسٹرڈ ہونی چاہیے تاکہ کلائنٹ کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو ذمہ داروں سے بات کی جا سکے۔
آن لائن شاپنگ کے حوالے سے ملک کے نامور ڈیزائنر حسن شہریار کہتے ہیں کہ جو تخلیقی کام کررہے ہوتے ہیں انہیں آن لائن سیل سوٹ نہیں کرتی۔ ’لہٰذا ہمارا کام بھی ایسا ہے کہ ہم آن لائن سیل نہیں کرسکتے ہمارے پاس لوگ آتے ہیں ان کی پسند اور جسامت کے حساب سے آڈر پر تیار کرنا پڑتا ہے۔ ڈیزائنر کا کام ہے وہ کلائنٹ کو نہ صرف تسلی بخش کام کرکے دے بلکہ اس کی خامیوں کو چھپائے۔‘

شیئر: