Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ: بیل منڈھے چڑھے گی؟

اپوزیشن نے نیشنل ڈائیلاگ کے مشورے کو مسترد کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
آج کل ہر طرف گرینڈ نیشل ڈائیلاگ کا بہت شہرہ ہے۔ ہر کوئی بات بعد میں شروع کرتا ہے ڈائیلاگ کا ماتم پہلے شروع کر دیتا ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی یہی مطالبہ ہے، اپوزیشن بھی یہی کہہ رہی ہے۔ عوام بھی اس صورتِ حال میں کچھ سکھ کا سانس لینا چاہتے ہیں۔ 
تو سوال یہ ہے کہ اگر سب کا مطالبہ ایک ہی ہے تو یہ بیل منڈھے کیوں نہیں چڑھ رہی؟
اس بات کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ صرف ’گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ‘ کے مفہوم کی ہے۔ ہر فریق نے اس اصطلاح  کو اپنے اپنے معنی دے رکھے ہیں، سب کے اپنے اپنے مفاہیم اور مقاصد ہیں۔ جب ان مقاصد پر اتفاق ہو جائے گا تو یہ گرینڈ ڈائیلاگ بھی ہو جائے گا۔
ابھی فریقین کی گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی تعریف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ابھی تمام لوگ ایک دوسرے کی مجبوریاں سمجھ نہیں رہے۔ اتفاقِ رائے کے لیے تاریخ کے ورق کھنگالنے ہوں گے، غلطیوں کی نشاندہی کرنا ہوگی، قصور وار کو قصور وار ٹھہرانا ہو گا، تادیب کرنی ہو گی، تصحیح درکار ہوگی اور سب سے اہم بات تخصیص ختم کرنا ہوگی۔ 
ایک طبقہ فکر کا خیال ہے کہ یہ مکالمہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونا چاہیے جس میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر جی بھر کے الزام تراشی کریں، ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگائیں، ایک دوسرے پر خوب کیچڑ اُچھالیں۔

اپوزیشن نے حکومت کو31 جنوری کو مستعفی ہوجانے کی ڈیڈلائن دی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

پھر اس ڈائیلاگ کے قبیح حصے پبلک کیے جائیں، لوگوں کو جمہوریت کی رذالت کا سبق دیا جائے، اس نظام کی خامیوں کی طرف توجہ دلائی جائے، سیاسی جماعتوں سے نفرت کا احساس پیدا کیا جائے، عوام کو ایک نئے نظام کی طرف چلنے کی ترغیب دی جائے، ووٹ کی بے وقعتی کا احساس دلایا جائے، سیاستدانوں کی تاریخی غلطیوں کی طرف توجہ دلائی جائے، یہ کھل کر بتایا جائے کہ سب جماعتیں کسی زمانے میں اسٹیبلشمنٹ کی مرہونِ منت رہی ہیں، سب کا قبلہ ایک ہی رہا ہے، سب اقتدار میں آنے کے لیے بیساکھیوں کے طلب گار رہے ہیں، سب کا مقصد ہر قیمت پر اقتدار کا حصول رہا ہے، سب کرپٹ اور چور ہیں، عوام کو دھوکہ دیتے ہیں، غدار ہیں۔
اس طرح کے مکالمے کے نتیجے میں غیر جمہوری قوتیں اپنا دامن صاف بچا جائیں، نہ اپنی غلطی تسلیم کریں نہ منظر عام پر آئیں۔
جمہوریت ایک فرنگی نظام ہے، یہ پودا ہمارے ہاں پنپ نہیں سکتا وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے ڈائیلاگ کے چٹ پٹے حصوں کو پبلک کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے، توہین کے اس ٹھیکرے کو سرِ بازار پھوڑنے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے، تضحیک ، تمسخر اور توہین کی کھلی کچہری لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 
گرینڈ نیشل ڈائیلاگ کی ایک اور قسم بھی ہے۔ اس قسم کے ڈائیلاگ میں اپوزیشن جماعتیں حتمی مکالمے کی خواہش مند ہیں۔ بقول مریم نواز کے اس قسم کے ڈائیلاگ میں عمران خان کا ہونا ضروری نہیں۔ یہ براہِ راست مکالمہ چاہتی ہیں مقتدر قوتوں سے۔  

اپوزیشن لانگ مارچ کے حوالے سے لائحہ عمل 31 جنوری کے بعد طے کرے گی۔ فوٹو: اے ایف پی

بقول اپوزیشن: یہ ڈائیلاگ پبلک کیے جائیں، کھلی کچہری لگائی جائے، عوام کو آگاہی دی جائے۔ اس طرح کے ڈائیلاگ کا مطالبہ پی ڈی ایم کا ہے۔
اس طرح کے ڈائیلاگ پر نواز شریف مصر ہیں، اس طرح کے مکالمے پر مولانا فضل الرحمٰن اصرار کر رہے ہیں، اس طرح کے ڈائیلاگ کی آواز بلوچستان سے اٹھ رہی ہے، اس طرح کی گفتگو پر اے این پی مچل رہی ہے۔ اس طرح کے ڈائیلاگ تاریخ کی نئی سمت متعین کر سکتے ہیں، جمہوریت کا نیا سبق پڑھا سکتے ہیں نفرت کو محبت میں بدل سکتے ہیں۔  
ڈائیلاگ کی ایک تیسری قسم بھی ہو سکتی ہے۔ اس میں نہ کسی سیاسی جماعت کی شمولیت کی ضرورت ہے، نہ اسے پبلک کرنے کی ضرورت ہے، اس میں نہ کھلی کچہری لگے گی، نہ تمسخر اُڑانے کی ہی ضرورت ہے۔
یہ ڈائیلاگ طاقتور حلقوں کے مابین ہونا چاہیے۔ ملک کی ترقی کا عزم ہونا چاہیے، قائد کے فرمودات کو دہرانا چاہیے، حلف کی پاسداری کی بات ہونی چاہیے، خطا کار کو خطار کار کہنا چاہیے، اپنی خامیوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے، ملکی معیشت کی بحالی کے لیے کوشش کرنے کی بات ہونی چاہیے، میڈیا کو سچ بولنے کی ترغیب دینے کی بات ہونی چاہیے، اپنے کام پر توجہ دینے کا عزم کرنا چاہیے۔

پی ڈی ایم نے اپنے ارکان کے استعفے حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس طرح کا ڈائیلاگ اگر ہو جائے تو اس سے ملک میں جمہوریت کے فروغ میں مدد ملے گی اور معیشت بھی درست راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔ 
میڈیا پر گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا نعرہ لگانے والوں سے درخواست ہے کہ جب وہ اس مکالمے کا نعرہ لگائیں تو ساتھ عوام کو یہ بھی بتاتے جائیں کہ وہ کس قسم کے ڈائیلاگ کی  راہ ہموار کر رہے ہیں، ڈائیلاگ سے ان کا مطمعِ نظر جمہوریت کی توہین ہے یا جمہوری سوچ کا فروغ ہے۔

شیئر: