Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانیت کی بدلتی ہوئی ضروریات کی تکمیل کے لیے ’ذا لاین‘ کا تعمیراتی منصوبہ

دا لائن کے لیے سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ 500 ارب ڈالر کی امداد فراہم کرے گا۔ فوٹو: عرب نیوز
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ’ذا لاین‘ کے نام سے ایک نئے شہری منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ شہروں کے موجودہ تصور کو بدل کر رکھ دے گا۔
یہ منصوبہ سعودی عرب کے مستقبل سے متعلق وژن اور اس سے وابستہ امیدوں کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرے گا۔
سعودی ولی عہد نے رواں ہفتے ’ذا لاین‘ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس منصوبے کے لیے سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ 500 ارب ڈالر کی امداد فراہم کرے گا، جبکہ مقامی اور عالمی سرمایہ کار اگلے دس سال تک مالی معاونت کریں گے۔‘
شہزادہ محمد بن سلمان کے مطابق ’اس منصوبے سے سعودی عرب کی مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں 48 ارب ڈالر کا اضافہ ہوگا جبکہ 3 لاکھ 80 ہزار ملازمتیں پیدا ہوں گی۔‘
نیوم (این ای او ایم) نامی منصوبہ بھی سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے تحت ہی شروع کیا گیا تھا جو سال 2025 میں مکمل ہوگا۔
نیوم میں ہی ذا لاین کے نام سے ایک نیا شہر تعمیر کیا جائے گا جو 170 کلومیڑ کے رقبے پر محیط ایک پٹی ہوگی۔ اس شہر کی تعمیر کا آغاز رواں سال مارچ میں کر دیا جائے گا۔ اس منفرد شہر میں نہ سڑکیں ہوں گی، نہ شاہراہیں، نہ ہی گاڑیوں کا استعمال ہوگا اور کاربن کا اخراج سفر ہوگا۔
نیوم کے تحت سعودی عرب کے شمال مغرب میں 26 ہزار 500 مربع کلومیٹر رقبے پر محیط کاروباری زون تعمیر کیا جا رہا ہے جس میں ٹیکنالوجی اور صنعت کے علاوہ دیگر شعبوں پر بھی توجہ دی جائے گی۔
اسی طرح سے ’ذا لاین‘ منصوبہ بھی انسانی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
یہ منصوبہ شہروں کے موجودہ تصور کو نئے انداز میں پیش کرے گا جس میں جدید ٹیکنالوجی کو زیر استعمال لایا جائے گا۔ ذا لاین دنیا بھر کے لیے ایک ماڈل شہر ہوگا جس یہ آگہی پیدا ہوگی کہ تعمیراتی طریقوں کو تبدیل کر کے اپنے ارد گرد کی خالی جگہوں کو بہتر اور مؤثر انداز میں کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

 دا لائن منصوبہ سعودی عرب کے ویژن 2030 کا حصہ ہے۔ فوٹو: نیوم ویڈیو گریب

موجودہ شہروں کے ڈھانچے یا نقشے پر غور کیا جائے تو یہ ایک گول دائرے کی شکل میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں، جبکہ جدید تجربے کے تحت کچھ شہر لمبائی یعنی ایک پٹی پر تعمیر کیے گئے ہیں جو اکثر ممالک میں دریا یا سمندر کے متوازی بنے ہوئے ہیں۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا نے دنیا بھر میں یہ احساس اور شعور اجاگر کیا ہے کہ کس طرح سے خالی جگہوں کو صحت مندانہ انداز میں استعمال کیا جائے۔ 
لینیئر یعنی لمبائی میں پھیلی ہوئی طرز تعمیر کا تصور نیا نہیں ہے لیکن کورونا سے پیدا ہونے والی صورت حال نے حکومتوں کو مجبور کر دیا ہے کہ اس قسم کے منصوبوں کو اپنایا جائے۔
دو دہائیوں میں یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ شہروں کی تعمیر سڑکوں کے بجائے لوگوں کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جا رہی ہے۔
یعنی شہریوں کی روز مرہ کی ضروریات جیسے سکول، ہسپتال، تفریحی مقامات اور پارکس کو ہر شخص کے لیے صرف پانچ منٹ کے فاصلے پر مہیا ہونا چاہیے۔
اس لینیئر طرز تعمیر کی وجہ سے نہ صرف شہریوں کی زندگی میں وقت کی بچت ممکن ہوگی بلکہ صحت مندانہ لائف سٹائل اپنانا بھی آسان ہوگا۔
جیسا کہ نیوم منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے سعودی حکومت نے کہا تھا کہ ’یہاں پر دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں افراد کو کام کرنے اور رہائش کی سہولیات مہیا ہوں گی۔‘

دا لائن کا منصوبہ شہروں کے موجودہ تصور کو بل کہ رکھ دے گا۔ فوٹو نیوم

نیوم میں قصبے، شہر، بندرگاہیں، کاروباری زونز، تحقیقاتی سینٹر، کھیل، تفریحی اور سیاحتی مقامات ایک ہی جگہ پر موجود ہوں گے۔
جدت کا مرکز ہونے کے ناطے نیوم میں دنیا بھر کے سرمایہ کار، کاروباری شخصیات اور کمپنیاں آئیں گی جہاں انہیں نئی ٹیکنالوجی میں تحقیق اور اسے دنیا بھر میں متعارف کرنے کے مواقع حاصل ہوں گے۔
ذا لاین اور نیوم منصوبے کو ترقی پسندانہ قوانین کی بنیاد پر ڈیزائن کیا گیا ہے جو بین الاقوامی معیار سے مطابقت رکھتے ہیں اور کورونا کے بعد کی معاشی ترقی کے لیے سازگار ثابت ہوں گے۔
نیوم قابل تجدید توانائی کے ذرائع پیدا کرنے کا مرکز ہونے کے علاوہ یہاں پر ایسی سمارٹ ٹیکنالوجی تیار ہو سکے گی جو توانائی کے لیے کوئلے اور تیل پر انحصار کم سے کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔
ذا لاین اپنی نوعیت کا ایک منفرد منصوبہ ہے جس سے انسانوں کو کورونا سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نہ صرف نمٹنے میں مدد ملے گی بلکہ موسمیاتی تبدیلوں کا مقابلہ کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔
یہ وقت تبدیلی کا ہے۔ جیسا کہ کورونا کی عالمی وبا نے چوتھے صنعتی انقلاب کے آغاز کی بنیاد رکھ دی ہے، اسی طرح سے ذا لاین کا منصوبہ بھی چوتھے صنعتی انقلاب کی ضرروریات اور اس کے عالمی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

شیئر: