Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ترکی کے لیے کورونا وبا مخالف نظریات کو خاموش کرانے کا ایک بہانہ‘

بار ایسوسی ایشنز کے اسٹرکچر میں قانونی تبدیلی نے بھی ترکی میں عدلیہ کی آزادی کو مجروح کیا۔ (فوٹو: روئٹرز)
ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے اپنی عالمی رپورٹ میں ترکی کی جانب سے گزشتہ برس میں انسانی حقوق کے خلاف بڑھتے کریک ڈاؤن کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق یہ عالمی رپورٹ 13 جنوری کو ریلیز کی گئی ہے۔
 نیویارک میں دفتر رکھنے والی انسانی حقوق کی تنظیم نے ترک حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ مطلق العنانیت میں اضافے، مخالف خیالات کو خاموش کرنے اور اپوزیشن جماعتوں کو بے اثر کرنے کی قانون سازی کے لیے کورونا وبا کو بہانے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے اپریل میں جیل سے جلد رہائی سے متعلق ایک قانون اپنا کر اپنی آمرانہ طاقت کو مزید مستحکم کیا۔ اس بل میں وبا کے باوجود سیاسی قیدیوں اور صحافیوں کے نام رہائی کے لیے شامل نہیں کیے گئے تھے۔
رپورٹ میں جولائی میں سوشل میڈیا پر لگائی جانے والی ان پابندیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن میں حکومت کو اپوزیشن کے نکتہ نظر کو دکھانے والے متبادل میڈیا چینلز کو مانیٹر کرنے اور حکومتی ایما ہر مواد کو بلاک کرنے یا ہٹانے سے انکار پر جرمانے کا اختیار بھی دیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق بار ایسوسی ایشنز کے اسٹرکچر میں قانونی تبدیلی نے بھی ترکی میں عدلیہ کی آزادی کو مجروح کیا کیونکہ یہ نیا قانون ’ترکی کی سب سے بڑی بار ایسوسی ایشنز کی ادارہ جاتی طاقت کو کم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، جس نے ترکی میں انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے زوال پذیر ہونے پر سخت تنقید کی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے 2020 میں کے آخر میں پاس ہونے والے ایک قانون کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس میں وزارت داخلہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ غیرسرکاری گروہوں کی سرگرمیوں کا سالانہ معائنہ کر سکتے ہیں اور اگر یہ سرگرمیاں غیرقانونی ہوں تو بورڈ ممبرز کو برخواست کر سکتے ہیں۔

شیئر: