Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

واٹس ایپ کی نئی پالیسی، پاکستان میں ڈیٹا پروٹیکشن قانون کا کیا بنا؟

وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ انہوں نے شہریوں کی پرائیویسی کو محفوظ بنانے کے لیے ڈیٹا پروٹیکشن بل پر کام تیز کر دیا ہے (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان کے وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکشن سید امین الحق نے کہا ہے واٹس ایپ کی جانب سے نئی پرائیویسی پالیسی کی وجہ سے پاکستانی صارفین کے حقوق بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں اس لیے حکومت نے پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل پر کام کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعہ کو واٹس ایپ کے فیصلے پر قدرے تاخیر سے دیے گئے اپنے ردعمل میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ’واٹس ایپ نے اپنے ماضی کے وعدے کے خلاف نئی پالیسی جاری کی ہے جو باعث تشویش ہے۔‘
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ’ہم واٹس ایپ کی اپ ڈیٹ پالیسی کے حوالے سے پاکستانی صارفین میں پائی جانے والی تشویش سے بخوبی آگاہ ہیں اور تمام معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے اپنی پالیسیوں کو مرتب کر رہے ہیں۔ اس کے تحت پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل کی تیاری، سرکاری ملازمین کے لیے چیٹنگ ایپلی کیشن پر کام اور سوشل میڈیا کمپنیوں سے رابطوں میں تیزی لائی گئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ واٹس ایپ انتظامیہ کی جانب سے وضاحتی بیان کے مطابق پرائیویسی پالیسی کا اطلاق انفرادی صارفین نہیں بلکہ ’بزنس کنزیومر‘ پر ہوگا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 2014 میں فیس بک نے واٹس ایپ کو خریدا تھا تو ان کی جانب سے یہی کہا گیا تھا کہ وہ رازداری سے متعلق اپنی پالیسیوں کو تبدیل نہیں کریں گے۔ پھر 2016 میں واٹس ایپ نے صارفین کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ اپنی معلومات دوسری کمپنیوں کو استعمال کرنے کی اجازت دیں یا نہ دیں۔‘
لیکن انھوں نے اپنے اس بین الاقوامی وعدے کے برخلاف اپنی تازہ اپ ڈیٹ پالیسی کو صارفین کے قبول نہ کرنے کی صورت میں ایپلی کیشن ڈیلیٹ کرنے کی جو بات کی ہے وہ باعث تشویش ضرور ہے، کیونکہ یہ حق صارف سے نہیں چھینا جاسکتا کہ وہ اپنا ڈیٹا کسی کو شیئر کرنے کی اجازت دیں یا نہ دیں، اس پر کوئی کمپنی اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے صارفین کے حقوق بری طرح  متاثر ہوسکتے ہیں۔‘

پاکستان میں زیادہ تر صارفین واٹس ایپ کا استعمال کرتے ہیں (فوٹو: فری پک)

سید امین الحق کا کہنا تھا کہ ’اگر واٹس ایپ نے اپنی اس نئی پالیسی کو جاری کر ہی دیا ہے تو پہلے بطور سبجیکٹ صارف کی رائے لی جانی چاہیے تھی پھر اسے پوری دنیا کے لیے یکساں ہونا چاہیے تھا لیکن  یورپ، برازيل اور امریکہ میں ان نئی پالیسوں کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس کی بنیادی وجہ وہاں موجود رازداری کے حوالے سے موجود سخت قوانین ہیں جن کی پاسداری کرنے کے لیے واٹس ایپ پابند ہے۔‘
وفاقی وزیر آئی ٹی نے کہا کہ ’واٹس ایپ کی جانب سے صارفین کے حساس ڈیٹا شیئرنگ پالیسی کے بعد اب یہ ضروری ہوگیا تھا کہ ہم پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل پر اپنے کام کی رفتار کو دوگنا کر دیں تاکہ ہمارے شہریوں کی پرائیویسی کو جلد سے جلد محفوظ بنایا جا سکے۔‘
’اس سلسلے میں ہم نے گذشتہ ایک سال سے پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل کے مسودے پر جاری کام کو مزید تیز کرتے ہوئے جمعرات کو اس حوالے سے فائنل جائزہ اجلاس کیا ہے جس میں تمام امور پر تفصیلی غور کے بعد اسے تقریباً حتمی مراحل میں داخل کر دیا گیا ہے جسے کچھ دنوں میں متعلقہ محکمے کو ارسال کرکے پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے پیش کردیا جائے گا۔‘
سید امین الحق کے مطابق ’اس بل میں بنیادی اہمیت بطور سبجیکٹ ایک عام پاکستانی صارف کو دی گئی ہے جبکہ بل کی تیاری میں تمام فریقین سے مشاورت کا ایک طویل عمل بھی مکمل کیا گیا ہے تاکہ کسی کے حقوق غصب نہ ہوں۔ اور ساتھ ہی بین الاقوامی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے تناظر کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔‘

واٹس ایپ کی نئی پالیسی کی وجہ سے پاکستان میں صارفین پریشان ہے (فوٹو: فری پک)

وفاقی وزیر نے کہا کہ ’یہ یاد رہے کہ چند ہفتے قبل ہی پاکستان میں سوشل میڈیا قواعد بھی لاگو کیے گئے ہیں۔ ان قواعد میں یہ شامل ہے کہ تمام سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان میں اپنا رابطہ آفس قائم کریں تاکہ اس جیسے یا دیگر مسائل پر حکومت، کمپنیوں اور صارفین کے مابین فوری رابطوں کو یقینی بنایا جاسکے، ہم اس کے لیے ان کمپنیوں کی جانب سے جواب کے منتظر ہیں۔‘
’جہاں تک واٹس ایپ کی طرز پر کسی پاکستانی ایپلی کیشن کی تیاری کا تعلق ہے تو یہ واضح کردوں کہ وفاقی کابینہ نے کچھ عرصہ قبل وزارت آئی ٹی کو یہ ٹاسک دیا تھا کہ سرکاری افسران و ملازمین کے لیے واٹس ایپ کی طرز پر ایک ایسی ایپلی کیشن بنائی جائے جس کا نہ صرف تمام ڈیٹا بلکہ اس پر کی جانے والی گفتگو بھی محفوظ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت دستیاب تمام چیٹنگ ایپلی کیشنز کا ڈیٹا انڈیا اور امریکہ سمیت دیگر ممالک میں محفوظ ہوتا ہے جو کسی بھی وقت سکیورٹی کے لحاط سے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس ضمن میں تمام ابتدائی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں اور امید ہے کہ ہم  جون 2021 تک ’سمارٹ آٖفس‘ کے نام سے ایک  ایپلی کیشن لانچ کرسکیں گے، تاہم یہ آزمائشی بنیادوں پر ہوگی جس میں آنے والی ممکنہ خرابیوں اور رکاوٹوں کو دور کرکے پھر اسی ایپلی کیشن کے ایک حصے کو یا اسی طرز کی دوسری ایپلی کیشن (کسی دوسرے نام سے) کو عام پاکستانی صارفین کے لیے بھی لانچ کردیا جائے گا اور یہ مکمل محفوظ ایپلی کیشن ہوگی۔ اس میں کچھ عرصہ درکار ہوگا لیکن موجودہ دور میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر ہماری کوشش ہے کہ اس ایپلی کیشن کا اجرا جلد سے جلد کر دیا جائے۔‘

شیئر: