Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جو بائیڈن کا مقابلہ کرنے کے لیے ترکی ’دوستوں کی تلاش میں‘

حالیہ برسوں میں امریکہ اور ترکی کے درمیان تعلقات کشیدگی کا شکار ہوئے تھے (فوٹو: اے پی)
ممکنہ مخالف امریکی انتظامیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ترک صدر رجب طیب اردگان یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
یہ تعلقات ان کی جارحانہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے متاثر ہوئے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انقرہ اور برسلز کے مابین تعلقات کافی حد تک کم ہوگئے تھے جب سے ترکی نے 2005 میں یورپ میں شامل ہونے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا تھا تاہم مذکرات کا یہ عمل اب رک گیا ہے۔
ترکی کے صدر اردگان  یورپ کے ساتھ تعلقات کا نیا آغاز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یورپی شکایات کی ایک لمبی فہرست ہے۔
حال ہی میں برسلز نے مشرقی بحیرہ روم میں ترکی کی جانب سے قدرتی گیس کی تلاش پر پابندیوں کی ایک فہرست تیار کرنا شروع کر دی ہے جس سے گذشتہ برس ترکی اور یونان میں کشیدگی بڑھ گئی تھی۔
ترک صدر رجب طیب اردگان کی جانب سے شام اور لیبیا کے تنازعات میں براہ راست فوجی مداخلت پر یورپ نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔
آذربائیجان میں ناگورنو کاراباخ میں جنگ کی حمایت پر بھی مغرب میں آرمینیا کے اتحادیوں کو ناراض کر دیا تھا۔

ترک صدر نے یورپی سفیروں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں (ٖفوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح رجب طیب اردگان نے لاکھوں شامی اور دیگر مہاجروں کو یورپ بھیجنے کی دھمکی بھی دی تھی۔
ایک یورپی سفارت کار نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس قدر کمزور معیشت کے ساتھ ترکی امریکہ اور یورپ کے ساتھ کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘
بین الاقوامی تعلقات کے انسٹیٹیوٹ، جرمن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ سکیورٹی افیئرز اینڈ ایلکانو انسٹیٹیوٹ کے تجزیہ کار انکائی تائیگور کا کہنا ہے کہ ’اردگان دوستوں کی تلاش میں ہیں اور ہر ایک کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔‘
اس مقصد کے لیے انہوں نے یورپی سفیروں سے ملاقاتیں کی ہیں اور بعض سفیروں نے ان ملاقاتوں کو ’مثبت‘ قرار دیا ہے۔
ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاولوش جمعرات کو برسلز کا دورہ کریں گے۔

نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن رواں ہفتے حلف اٹھائیں گے (فوٹو: اے ایف پی)

فرانسیسی صدر اور ترک صدر کے درمیان خطوط کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔
اردگان کے اس بدلتے لہجے کی وجہ امریکی نو منتخب صدر جو بائیڈن کی ڈونلڈ ٹرمپ پر فتح ہے، ٹرمپ نے ماضی میں ترک صدر کو ’اچھا دوست‘ کہا تھا۔
یورپی سفارت کار کا کہنا ہے کہ ’بائیڈن کی فتح نے صورتحال یکسر تبدیل کر دی ہے، ترکی توقع کر رہا ہے کہ اگلی امریکی انتظامیہ اسے مسائل سے نکالنے میں کم دلچسپی لے گی۔‘
نو منتخب امریکی صدر بائیڈن کی جانب سے کچھ تقرریوں سے بھی انقرہ میں تشویش پیدا ہوگی۔

شیئر: