Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بائیڈن کے دور صدارت میں ترکی کے کرد مسئلہ پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟

کردوں کو امید ہے بائیڈن انتظامیہ خاموش نہیں رہے گی ( فوٹو عرب نیوز)
20 جنوری کو امریکی صدر اور ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے پر ترکی اور دیگر جگہوں پر بہت سے کرد جشن منائیں گے۔
عراق میں رہنے والے افراد اس بات کو یاد کریں گے جب ٹرمپ انتظامیہ نے ستمبر 2017 کے آزادی ریفرنڈم کے دوران انہیں لٹکا دیا تھا جس سے ایران، بغداد اور شیعہ ملیشیاؤں کو حملوں کا موقع مل گیا تھا جبکہ ترکی نے ان کی ناکہ بندی کرنے کی دھمکی دی تھی۔
دریں اثنا ترکی کے پاس انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکہ کے چیچنے چلانے سے خوفزدہ ہونے کی بہت کم وجہ تھی کیونکہ اس نے کردش پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کے ہزاروں کارکنوں اور ان کے منتخب نمائندوں کو گرفتار اور جیل بھیج دیا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اکتوبر 2019 میں شام کے شمال مشرقی میں ترک سرحد سے امریکی فوجوں کو واپس بلا لیا۔ ٹرمپ کے اس اقدام نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کو وہاں پرکرد محصوروں پر چھاپے مارنے کے لیے گرین سگنل فراہم  کیا اور اس کے نتیجے میں سیکڑوں ہزاروں کرد مارے گئے۔
شام میں کرد فورسز جنہوں نے ابھی داعش کے خلاف کامیاب زمینی مہم کا اختتام کیا تھا کو ایک بے حس اور غیر متوقع امریکی انتظامیہ نے دھوکہ دیا۔
ٹرمپ کے اردوغان کے ساتھ فون پر ترک آپریشن کو گرین سگنل دینے سے کچھ دن قبل ہی امریکیوں نے شام کے کردوں کو ترکی کی سرحد کے قریب واقع اپنی قلعہ بندی ختم کرنے پر راضی کر لیا تھا تاکہ وہ ’ترکی کو یقین دہانی کرا سکیں۔‘

 ترکی نےشام اورعراق میں بھی کردوں کےخلاف فوجی کارروائی کی ہیں۔( فوٹو عرب نیوز)

زیادہ تر کرد جو بائیڈن کے واشنگٹن میں اقتدار سنبھالنے کے منتظر ہیں۔ ترکی میں جہاں سے قریب دنیا کی نصف کرد آبادی کا تعلق ہے بہت سے لوگوں کو امید ہے کہ بائیڈن کی نئی انتظامیہ انقرہ پر اپنی فوجی مہمات بند کرنے اور کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے ساتھ مذاکرات کی میز پر واپس آنے کے لیے دباؤ ڈالے گی۔
انہیں امید ہے کہ بائیڈن کی زیر قیادت انتظامیہ خاموش نہیں رہے گی کیونکہ اردوغان کی حکومت نہ صرف ترکی میں انسانی حقوق کو پامال کرتی ہے بلکہ وہ شام اور عراق میں بھی کردوں کے خلاف فوجی کارروائی کرتی ہے۔
سابق امریکی صدر اوباما انتظامیہ کے دورِ حکومت کے دوران جس میں بائیڈن نے بطور نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، کرد سے ٹرمپ کی نسبت کچھ بہتری کی توقع کر سکتے ہیں لیکن انہیں اپنی امیدوں کو بہت زیادہ بڑھانا نہیں چاہئے۔

واشنگٹن کردوں کے خلاف ترکی کی انسانی حقوق کی پامالیوں پر آنکھیں چرا رہا تھا۔(فائل فوٹو عرب نیوز)

کسی کو صرف یہ یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ جب اوباما انتظامیہ برسر اقتدار تھی،اس وقت اردوغان کی حکومت نے 2015 میں کرد امن عمل کو کس طرح ترک کر دیا تھا۔
اس وقت ایچ ڈی پی کی 2015 کے موسم گرما میں انتخابی عمل میں بہتر کارکردگی کی وجہ سے اردوغان کو پارلیمنٹ میں ان کی اکثریت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اردوغان نے اس بات کا یقین دلایا کہ جون کے انتخابات کے بعد کوئی حکومت تشکیل نہیں دی جا سکے گی اورانہیں نومبرمیں دوبارہ الیکشن بلانے کی اجازت دی جائے گی۔
جون اور نومبر کے درمیان ان کی حکومت نے کردوں کے ساتھ بات چیت ترک کر دی اور پی کے کے کے خلاف دوبارہ جنگ شروع کردی۔ اردوغان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) نومبر میں اپنی کارکردگی میں بہتری لائی، ترک فوج نے پورے کرد شہروں کے محاصرے میں مزید اضافہ کر دیا جس کے نتیجے میں انہیں حق رائے دہی سے محروم کر دیا گیا۔

ٹرمپ نے اکتوبر 2019 میں ترک سرحد سے امریکی فوجوں کو واپس بلا لیا تھا۔( فوٹو عرب نیوز)

نومبر 2015 کے ووٹ کے بعد اردوغان نے انتہائی دائیں بازو اور کرد مخالف نیشنل ایکشن پارٹی (ایم ایچ پی) کے ساتھ ایک نئی حکومت تشکیل دی۔
2015 اور 2016 میں بغاوت کے خلاف مہم کے ایک حصے کے طور پر جنوب مشرقی ترکی کے کرد اکثریتی شہروں میں پورے شہر بلاکس کو زمین بوس کر دیا گیا۔ ترک فوج نے سیزر نامی قصبے میں کرد شہریوں کو زندہ جلایا جب وہ ایک تہ خانے میں چھپے ہوئے تھے۔
سرنک میں فوٹیج سامنے آئی جب ترک فورسز نے ایک بکتر بند گاڑی کے پیچھے معروف کرد فلم ساز کی لاش کو گھسیٹا۔ نصیبین میں ایم ایچ پی کے اراکین پارلیمنٹ نے پورے شہر کو کچلنے کا مطالبہ کیا۔
اس دوران اوباما انتظامیہ بڑے پیمانے پر خاموش رہی۔ واشنگٹن میں پالیسی سازوں نے بالآخر ترکی میں نیٹو کے فضائی اڈوں کو داعش کے خلاف اپنی مہم میں استعمال کرنے کے بارے میں ترکی کی رضامندی حاصل کر لی تھی اور انقرہ نے بھی اس کوشش میں شامل ہونے کا وعدہ کیا۔

ترکی خطے میں امریکہ مخالف ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔(فوٹو عرب نیوز۹

واشنگٹن ترکی کی جانب سے ترکی اور شام میں موجود کردوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں پر آنکھیں چرا رہا تھا۔ یہاں تک کہ عراق میں ترکی کے فضائی حملے جس نے کبھی کبھی سنجر جیسی جگہوں پر عراقی فوج کے جوانوں اور عام شہریوں کو ہلاک کیا، اوباما یا ٹرمپ کے تحت کسی بھی امریکی سرزنش کو روکنے میں ناکام رہے۔
اگر بائیڈن کی نئی انتظامیہ اوباما انتظامیہ کے ترکی کے حوالے سے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار پر واپس آجائے تو بہت کم تبدیلی آ سکتی ہے۔
اگرچہ بائیڈن انتظامیہ شام اور عراق میں ابتدائی طور پر کرد اتحادیوں کو ٹرمپ کی طرح بس کے نیچے پھینک نہیں سکتی، لیکن وہ شاید بنیاد پرست اسلام پسندوں پر قابو پانے کے لیے ترکی پر بھروسہ کرنے کی جھوٹی امیدوں پر قائم رہے۔
واشنگٹن میں بہت سے لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ ترکی اب بھی روس اور ایران کو کاؤنٹر کرنے میں امریکی  کی مدد کر سکتا ہے۔ اس بات کے ثبوت پر کوئی اعتراض نہیں کہ ترکی دونوں ممالک کے ساتھ خطے میں امریکہ مخالف ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔

شیئر: