Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ میں اقتدار کی منتقلی: عربوں کی توقعات کیا ہیں؟

سروے کے تمام نتائج میں ایران کے ساتھ 2015 کی نیوکلیئر ڈیل کو مسترد کیا گیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ڈیموکریٹ جو بائیڈن گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے کر امریکہ کے 46 ویں صدر بنے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق ان انتخابات کے نتائج واضح طور پر ان سیاسی اختلافات کو بھرنے میں ناکام رہے، جو ملک میں طاعون کی طرح پھیلے ہیں۔
یہاں تک کہ ٹرمپ نے بدھ کو حلف برداری کی تقریب میں بھی شرکت نہیں کی۔
مشکل معاملات، بدترین کورونا وائرس کا بحران اور ہائی سکیورٹی رسک کے سائے حلف برادری کی تقریب پر چھائے رہے، جہاں بائیڈن اور کملا ہیرس نے بطور صدر اور نائب صدر کا حلف اٹھایا۔
جہاں بائیڈن کی پوری توجہ وبا، سست معیشت اور بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم سے نمٹنے پر ہوگی، وہیں توقع ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات بھی اعلیٰ ترجیحات میں شامل ہوں گے۔
جہاں تک مشرق وسطیٰ کا تعلق ہے، بائیڈن کو کئی چیلنجز درپیش ہوں گے۔
پچھلے برس عرب نیوز کے آن لائن پولنگ کمپنی ’یوگوو‘ کے اشتراک کے ساتھ ہونے والے ایک سروے میں 49 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ بائیڈن یا ٹرمپ، ضروری نہیں کہ اس خطے کے لیے بہتر ہوں۔
مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اوبامہ انتطامیہ کی میراث سے آزاد نہیں ہو سکتے، جہاں انہوں نے دو ادوار بطور نائب صدر گزارے۔
بائیڈن کے مشیروں کو مشورہ دیا جائے گا کہ وہ انتظامیہ کی نئی مشرق وسطیٰ پالیسی تشکیل دینے کے دوران عرب خطے سے آرا سنیں۔
عرب نیوز اور یوگوو کے مشترکہ سروے میں 58 فیصد اکثریت نے کہا ہے کہ بائیڈن لازمی طور پر مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اپنے سابق باس، باراک اوباما کی پالیسی کو ختم کریں۔
اس سروے میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے 18 ممالک میں لوگوں سے سوالات پوچھے گئے اور واضح طور پر عربوں کے درمیان اوباما کی پالیسیاں غیرمقبول نظر آئیں۔ لوگوں نے 2009 میں قاہرہ یونیورسٹی میں ان کی تقریر کے دوران ’نئے آغاز‘ کے وعدے کی ناکامی پر بھی مایوسی کا اظہار کیا۔
’دی 2020 یو ایس الیکشنز- عرب کیا چاہتے ہیں؟‘ کے عنوان سے اس تحقیق میں یہ بھی دکھایا گیا کہ 44 فیصد عرب، نوجوانوں کے بااختیار ہونے کو عالمی ترقی کا اہم محرک سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ بائیڈن انتطامیہ کی ترجیح ہونی چاہیے۔
عربوں کی ٹرمپ انتظامیہ سے مایوسی قابل فہم ہے۔ جنوری 2017 میں ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے سات مسلم اکثریت آبادی والے ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں 90 دن کے لیے داخل ہونے کی پابندی عائد کی تھی۔
اس ایگزیکٹو آرڈر نے عرب ممالک کے طلبہ کو خوف میں مبتلا کر دیا تھا اور ان میں سے بہت سوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ میں متبادل کی تلاش شروع کر دی۔
مجموعی طور پر، سروے کے تمام نتائج میں صدر اوباما کی جانب سے ایران کے عزائم کو 2015 کی نیوکلیئر ڈیل کے ذریعے حل کرنے کی حکمت عملی کو مسترد کیا گیا ہے۔  
نیوکلیئر معاہدے کو امریکہ اور اسرائیل کے عرب اتحادیوں نے پاسدران انقلاب کو شام، یمن، عراق، لبنان اور فلسطین میں تباہی پھیلانے کی کھلی چھوٹ دینے کے طور پر دیکھا تھا۔
 

شیئر: