Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وادی ماوان جس کا  شمار انتہائی اہم آثار قدیمہ میں کیا جاتا ہے

چٹانوں اور گارے سے چنی گئی دیواروں کے دو قلعے اس وادی میں موجود ہیں۔(فوڈو عرب نیوز)
وادی ماوان کو سعودی عرب کے انتہائی اہم آثار قدیمہ میں شمار کیا جاتا ہے ۔ یہ ریاض کے جنوب میں الدلم نامی علاقے کے قریب واقع ہے۔ یہ حسن فطرت کا حیرت زدہ کر دینے والا خوبصورت خطہ ہے۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق  تاریخ کے پروفیسر اور آثار قدیمہ کے ماہر عبدالعزیز الغازی نے بتایا  ہے کہ وادیاں 2 قسم کی ہیں، ایک وہ جو دور سے نہیں دیکھی جا سکتیں بلکہ ان کے ’’سر پر کھڑے‘‘ ہو کر ہی انہیں دیکھا جا سکتا ہے۔
وادی ماوان انہی میں سے ایک ہے۔ دوسری قسم کی وادیاں وہ ہیں جنہیں دور سے دیکھنا ممکن ہے۔  ان کی مثال وادی الرماہ، التری اور الشوکی جیسی ہے۔

اس وادی کا شاندار نظارہ پتھر کے دو ڈھانچوں پر مشتمل ہے جو دونوں جانب موجود ہیں۔ یہاں قلعے، محل اور نگرانی کے لیے قائم کئے گئے دو مینار موجود ہیں۔
علاقے میں پائے جانیوالے آبی وسائل اور ہریالی اس علاقے کی سٹریٹیجک اہمیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ وادی کے اہم مقامات پر قلعے موجود ہیں۔
پروفیسر عبدالعزیز الغازی نے بتایا ہے  کہ اس  وادی کے ساتھ ساتھ ٹھوس زمین میں بہتے چشمے، فراز یعنی زمین پر ابھرے ہوئے مقامات اور آبی ذخائرموجود ہیں جو سال کے  طویل عرصے تک  موجود  رہتے ہیں۔
وادی ماوان کے کنارے کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے شہر بھی موجودہیں۔

 پروفیسر الغازی نے بتایا ہے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اس شہر کا نام وادی کے نام پر رکھا گیا تھا یا اس کے آس پاس دوسرے علاقے کے نام پر مگر حقیقت یہ ہے کہ وادی ،شہر سے پہلے ہی موجود تھی۔
اس کے باوجود  اس وادی اور اطراف میں پائے جانیوالے آثار قدیمہ کا ابھی تک مطالعہ نہیں کیا جاسکا ۔
کنگ سعود یونیورسٹی میں قدیم تاریخ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر سلمیٰ بنت محمد حوثوی نے  بتایاکہ آثار قدیمہ کے مشنوں نے انکشاف کیا ہے کہ خطے میں پیلیو لتھک اور بالائے  پیلیو لتھک دور یعنی ایک لاکھ سال قبل انسان موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ عرب ذرائع کے مطابق ماوان کے معنی پناہ گاہ کے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اس علاقے میں حزان اور ربیعہ سمیت متعدد عرب قبائل آباد تھے۔

اس وادی کا تذکرہ ابن درید ، عمروالقیس اور عرویٰ ابن الورد العبسی جیسے عرب شعرا کے کلام میں ملتا ہے ۔
یہ شاعر قبل از اسلام دور کے تھے ۔انہوں نے اس وادی نیز اُن جانوروں کے بارے میں بھی شعر کہے جو علاقے میں تھے جیسے اونٹ ، زیبرا اور گھوڑے وغیرہ۔
پروفیسر سلمیٰ حوثوی نے بتایا ہے کہ ان شاعروں کی جانب سے اس علاقے میں بہتے ہوئے تازہ پانی کا تذکرہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اُس دور میں بھی یہاں انسان آباد تھے۔
علاقے میں وادی کے اطراف قلعوں اور چوکیوں کے علاوہ مٹی کے برتن ، کنگن اور پتھروں سے بنے برتن ملے ہیں۔

وادی میں چٹانوں اور گارے سے چنی گئی دیواروں کے دو قلعے موجود ہیں۔
 یہ بات بھی واضح ہے کہ تعمیر کے لیے گارا وادی کے فرش سے ہی لایا گیا تھا اور چٹانیں اس کے کنارے کی سطح سے کاٹ لی گئی تھیں جو جنوب تک پھیلا ہوا ہے۔
انہوں نے نوٹ کیا کہ وادی کے جنوبی حصے میں واقع  قلعہ اور اس کی ایک دیوار تھی جو عربی حرف "با" سے مشابہت رکھتی ہے۔
دیوار کی بنیادوں کو پتھر کے سلیبوں کی مدد سے سہارا دیا گیا تھا جو زمین سے 60 سے 80 سینٹی میٹر اونچائی پر ہے۔ دیوار 6 میٹر یا اس سے بھی زیادہ اونچی ہے۔ ٹاوریا مینارے الگ ہیئت کے ہیں۔ ان کے مراکز نیچے تک کھلے ہوئے ہیں اور وہ بظاہر کسی چھت کے بغیر دکھائی دیتے ہیں۔
پروفیسرسلمیٰ حوثوی نے بتایاکہ مشرقی کونے میں قائم بُرج میں دو فرش ہیں ۔شمالی جانب کی عمارت ایک صحن پر مشتمل ہے جو چاروں طرف سے دیواروں سے گھرا ہوا ہے مگر یہ دیواریں بے قاعدہ ہیں۔ ان میں متعدد مینار یا بُرج شامل ہیں۔
حوثوی نے بتایا کہ نگہبانی بُرج، چوکیوں کے طور پر استعمال ہوتے تھے ۔ یہاں سے علاقے کی نگرانی کی جاتی تھی اور قلعوںکوعسکری اشارے  ارسال کئے جاتے تھے۔ دفاعی قلعے اس خطے کو غیر ملکی حملہ آوروں سے بچانے کے لئے تعمیرکئے گئے تھے۔
عرب ایک خطے سے دوسرے خطے میں پانی ، چراگاہوں اور استحکام کی تلاش میں جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ عرب ممالک کی جغرافیائی نوعیت میں واضح فرق دو اقسام کی آبادی کی موجودگی کے باعث ہے ۔
ان میں ایک بدو یعنی خانہ بدوش ہیں جو صحرا میں رہتے تھے اور دوسرے حیدری ہیں جوشہروں کو ترجیح دیتے اور زراعت ، تجارت و صنعت جیسے پیشے اپناتے تھے۔
پروفیسر سلمیٰ حوثوی نے  بتایا ہے کہ ہمیں آئندہ نسلوں کو اپنے اجداد کے ثقافتی ورثے سے متعارف کرانے کے لئے ان آثار کو محفوظ  بنانا ہوگا۔
 

شیئر: