Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پی ٹی آئی پیچھے ہٹ گئی مگر بی اے پی عبدالقادر کی حمایتی‘

پی ٹی آئی کے چاروں صوبائی ریجن نے عبدالقادر کو پیرا شوٹر قرار دیا تھا (فوٹو: اردو نیوز)
بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ وزیراعلیٰ جام کمال خان نے پی ٹی آئی کی جانب سے ٹکٹ واپس لیے جانے کے بعد آزاد حیثیت سے سینیٹ انتخاب لڑنے والے محمد عبدالقادر کی حمایت کردی ہے۔ 
وزیراعلیٰ جام کمال کا کہنا ہے کہ عبدالقادر کو پی ٹی آئی اور بی اے پی نے مشترکہ طور پر سینیٹ امیدوار منتخب کیا تھا۔ پی ٹی آئی پیچھے ہٹ گئی تاہم بی اے پی ان کی حمایت برقرار رکھے گی۔ 
بدھ کو الیکشن کمیشن کے صوبائی دفتر میں امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال ہوئی جس میں آزاد امیدوار محمد عبدالقادراور بی اے پی کی امیدوار ستارہ ایاز سمیت 16 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے گئے جبکہ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر بی اے پی کے امیدوار ڈاکٹر نواز ناصر کے کاغذات نامزدگی دوہری شہریت کے باعث مسترد کر دیے گئے۔
اسلام آباد میں مقیم کاروباری شخصیت عبدالقادر کو پہلے پاکستان تحریک انصاف نے بلوچستان سے جنرل نشست پر سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا تھا۔ تاہم پارٹی کی صوبائی قیادت کی جانب سے اعتراضات کے بعد تحریک انصاف نے ٹکٹ واپس لے لیا تھا۔ پی ٹی آئی کے چاروں صوبائی ریجن نے انہیں پیرا شوٹر قرار دیا تھا۔
پی ٹی آئی ٹکٹ واپس ہونے کے بعد عبدالقادر نے آزاد حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین ان کے تائید و تجویز کنندہ بنے۔ 
وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ جام کمال نے عبدالقادر کے بلوچستان سے انتخاب لڑنے کے فیصلے کا دفاع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عبدالقادر آج سے نہیں 2004 سے سینیٹ میں آنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو شاید یہ پتہ بھی نہیں کہ عبدالقادر کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ 
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی ستارہ ایاز کو بلوچستان سے پارٹی کا سینیٹ ٹکٹ دینے کے فیصلے کا بھی دفاع کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ مستقبل میں بلوچستان عوامی پارٹی خیبر پختونخوا میں بھی بڑی پارلیمانی جماعت بن کر سامنے آسکتی ہے۔
جام کمال کا کہنا تھا کہ آج اگر بلوچستان اسمبلی میں بی اے پی کے24 اراکین ہیں تو ہوسکتا ہے آنے والے دنوں میں بی اے پی کی نمائندگی بلوچستان میں کم اور کسی اور صوبے میں زیادہ ہو۔ 

وزیراعلیٰ جام کمال کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہاں سینیٹ کی نشستیں بکتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی صوبے سے سینیٹ میں اپنے نمائندے لائے جائیں۔ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت باقی جماعتوں کی مثال دی جاسکتی ہے کہ انہوں نے ایک صوبے سے تعلق رکھنے والے شخص کو دوسرے صوبے سے کامیاب کرایا۔
وزیراعلیٰ جام کمال کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہاں سینیٹ کی نشستیں بکتی ہیں مگر بلوچستان میں سینیٹ کے پچھلے چار ضمنی انتخاب میں بی اے پی کے منظور کاکڑ، سرفراز بگٹی، خالد بزنجو اور نصرت شاہین کامیاب ہوئے۔ ایک بھی شخص تحفے تحائف تو دور کی بات ایک ٹیلیفون کال کی بھی مثال دیں کہ سینیٹر صاحبان نے کسی کو فون کیا ہو۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم بلوچستان میں معیار لارہے ہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ بلوچستان میں کاغذات نامزدگی کی تائید و تجویز کرنے کے بھی پیسے لیے جاتے تھے مگر اس بار ہم نے پارٹی کے اندر کاغذات نامزدگی کے عمل کو بہت محدود رکھا اور انٹرویوز کے بعد امیدواروں کا انتخاب کیا۔‘

شیئر: