Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کویت پر عراق کی لشکر کشی غلطی تھی: رغد صدام حسین

صدام حسین کی بیٹی نے کہا کہ یقین ہے کہ میں عراق واپس جاؤں گی۔ (فوٹو: العربیہ)
عراق کے سابق حکمران صدام حسین کی بیٹی رغد ان دنوں العربیہ چینل کو سلسلہ وار انٹرویو دے کر ماضی کی یادوں اور تاریخ کے ایسے رازوں سے پردہ اٹھا رہی ہیں جن سے بہت سے لوگ اب تک ناواقف ہیں۔ 
العربیہ چینل نے رغد سے ایک تیکھا سوال یہ کیا کہ ’آپ کے والد صدام حسین ڈکٹیٹر اور سفاک قائد تھے؟۔ 
رغد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میرے والد ہی کیا پوری دنیا ڈکٹیٹر ہے‘۔ 
امریکہ کے حوالے سے رغد نے کہا کہ ’عراق پر ناجائز قبضہ امریکی آمریت کی ایک مثال ہے۔ امریکی عہدیدار تسلیم کر چکے ہیں کہ انہوں نے عراق کے معاملے میں غلطیاں کیں‘۔ 
صدام حسین کی بیٹی نے کہا کہ ’امریکہ نے عراق کے حوالے سے غلط فیصلہ کیا۔ اس کا نتیجہ ملک کی مکمل تباہی، نوجوانوں، خواتین اور مردوں کی ہلاکت کی صورت میں نمودار ہوا‘۔ 
انہوں نے اعتراف کیا کہ ’امریکہ نے عراق میں غلطی کی اور ہم نے کویت پر لشکر کشی کرکے غلطی کی‘۔ 
اس سوال پر کہ کیا وہ عراق واپسی کا ارادہ رکھتی ہیں۔ رغد نے کہا کہ ’ یقین ہے کہ میں عراق واپس جاؤں گی۔ میری آرزو ہے کہ ایسا ہو۔ عراق میرا وطن ہے۔ پورا بھروسہ ہے کہ ایک نہ ایک روز میری وطن واپسی ہوگی‘۔
یاد رہے کہ رغد صدام جنگ کے زمانے میں بغداد سے اپنے خاوند حسین کامل کے ہمراہ شام چلی گئی تھیں وہاں سے وہ اردن گئیں جہاں اب تک مقیم ہیں۔ 

والد جنگ خلیج کے دوران اہل خانہ پر کولڈ ڈرنک پینے پر پابندی لگائے ہوئے تھے۔ (فوٹو: العربیہ)

صدام کی صاحبزادی نے بتایا  کہ ’ان کے والد جنگ خلیج کے دوران اپنے اہل خانہ پر کولڈ ڈرنک پینے پر پابندی لگائے ہوئے تھے۔ انہوں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا تھا کیونکہ کویت پر لشکر کشی کے بعد جنگ کے زمانے میں بجلی اور پانی کے مسائل پیدا ہوگئے تھے۔ صدام حسین چاہتے تھے کہ جیسی زندگی عوام گزار رہے ہیں ویسی زندگی ان کے گھر والے بھی گزاریں‘۔ 
 ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’کویت پر لشکر کشی برادر ملک پر ناجائز قبضہ تھا۔ کویتی بھائیوں کے ساتھ  ہمارے محبت و الفت والے تعلقات تھے۔ اس قسم کے خاندانی تعلقات کے ہوتے ہوئے لشکر کشی کا فیصلہ آسان نہیں تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ فیصلہ  والد کے لیے بھی آسان نہ تھا‘۔ 
رغد نے یہ بھی کہا کہ ’یہ آسان مرحلہ نہ تھا ہم نے کویت پر ناجائز قبضہ کیا۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ ناجائز قبضہ تھا۔ انہوں نے ہمارے ساتھ برا کیا اور ہم نے ان کے حق میں برا کیا‘۔ 

جنگ کے زمانے میں اپنے دونوں گھروں کا منظر مجھے یاد آتا ہے۔ (فوٹو العربیہ)

رغد صدام نے بغداد کی آخری یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جنگ کے زمانے میں اپنے دونوں گھروں کا منظر مجھے یاد آتا ہے۔ ہمارا ایک گھر رہائش کے لیے تھا دوسرا ہنگامی حالات کے لیے اور جنگ کے دوران خطرات کے زمانے میں زرعی فارم میں تھا‘۔ 
 ’جب رہائش والا گھر چھوڑا تو ایسا لگا تھا کہ اب واپس نہیں آ سکیں گے۔ مجھے یہ واقعہ کل کا سا لگتا ہے۔ میں نے عجیب الوداعی انداز میں گھر کی دیواروں پر ایک نظر ڈالی تھی۔ اسی طرح زرعی فارم  کی تصویر بھی میرے ذہن سے چپکی ہوئی ہے۔ اس پر میں نے اس وقت آخری نظر ڈالی تھی جب بمباری ہوئی اور وہ ملبے میں تبدیل ہوگیا تھا۔ اس وقت میں اشکبار ہو گئی تھی۔‘
’وطن چھوڑنے والا لمحہ بڑا سخت تھا۔ گھر سے نکل کر قریے پہنچی تو پوری طرح سے ٹوٹ چکی تھی۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب میں عراق سے نکل رہی ہوں اور یہاں کبھی واپس نہ آ سکوں گی‘۔ 

عراق کی سیاسی زندگی میں تمام آپشن کھلے ہوئے ہیں۔ (فوٹو ٹوئٹر)

 صدام حسین کی صاحبزادی سے دریافت کیا گیا کہ وہ عراق میں کوئی سیاسی کردارادا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟ 
 رغد نے کہا کہ ’عراق کی سیاسی زندگی میں تمام آپشن کھلے ہوئے ہیں۔ تمام امکانات اور تمام راستے موجود ہیں۔ کوئی بھی راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے‘۔ 
انہوں نے کہا کہ ’والد کے اقتدار کے زمانے میں ان کی اہلیہ اور بیٹیوں نے کوئی سیاسی کردارادا نہیں کیا لیکن عراق کے سقوط کے بعد منظر نامہ بدل گیا ہے‘۔
رغد نے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ ’عراق کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ساری دنیا ہر روز وہ سب کچھ دیکھ رہی ہے جو عراق میں ہورہا ہے۔ غاصبانہ قبضے کے بعد پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے عراق بڑے مشکل مراحل سے گزرا ہے‘۔  
انہوں نے کہا کہ ’عراق خطے میں توازن پیدا کرنے والا ملک ہے۔ دوسروں کو مشکل میں ڈال کر کوئی بھی انسان آسانی سے پرآسائش زندگی نہیں گزار سکتا‘۔ 

رغد نے اپنی نجی زندگی کے حوالے سے بھی کھل کرسوالات کے جواب دیے۔(فوٹو ٹوئٹر)

رغد نے یہ بھی دعوی کیا کہ ان کے والد صدام حسین جنگوں کی خواہش نہیں رکھتے تھے۔ اس حوالے سے جو کچھ  کہا جارہا ہے وہ غلط ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ انہوں نے بعض فیصلے ایسے کیے جو شدت کے طلب گار تھے۔
رغد نے عراق کی تقسیم پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ’عراق کے حقیقی اقتدار کے فقدان کے بعد عراق ایرانیوں کے لیے لقمہ تر بن گیا ہے‘۔
رغد نے اپنی نجی زندگی کے حوالے سے بھی کھل کرسوالات کے جواب دیے۔
انہوں نے بتایا کہ والد کے ساتھ میرے شوہر کے اختلافات انتہائی سنگین تھے، اسی لیے عراق چھوڑ کر جانا پڑا۔
’طلاق میرے لیے غیر متوقع نہیں تھی کیونکہ حالات جس نہج پر پہنچ چکے تھے اس میں یہی ہونا تھا تاہم حسین کامل کے قتل میں صدام حسین سمیت خاندان کا کوئی فرد ملوث نہیں تھا۔‘
انہوں نے دعوی کیا کہ حسین کامل کو قبائلی سرداروں کی ایما پر ہلاک کیا گیا۔

شیئر: